مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(امجد طفیل)
ڈاکٹر امجد طفیل ممتاز ادیب، جیّد ناقد، بہترین ماہرِ نفسیات ہیں۔ علمِ نفسیات ہی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی، درس و تدریس سے انسلاک رہا۔ افسانوں کے تین مجموعے، تنقید کی آٹھ کتب، نفسیات پر پانچ تصانیف منظرِعام پر آئیں، سات کتب کی تدوین کا اعزاز حاصل ہے۔ مضطرب و متجسّس امجد طفیل سیاسی وسماجی شعور کے حامل، تہذیبِ انسانی کے پارکھ ہی نہیں، تہذیبی عناصر پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ کھرے اندازِ تحریر کے ساتھ وجودی کرب و بلا کے اظہار پر خُوب ملکہ حاصل ہے۔
’’کج مدار‘‘ میں ایک معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا، متفرق نقطہ ہائے نظر کو پیش کیا گیا ہے۔ اِس کے کردار ہیں، ایک نیا شادی شدہ جوڑا، جو پہاڑوں میں برفانی موسم میں برف کا منتظر ہے۔ ایک محنت کش بوڑھا اور ایک عورت، جو شادی شدہ اور مجسّم انتظار ہے۔
وہ دونوں وائٹ روز کے گرم اور آرام دہ ماحول میں ایک دوسرے کو محبّت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے سیکڑوں بار دیکھے ہوئے چہرے انھیں نئے نئے محسوس ہو رہے تھے۔ لڑکے نے شیشے سے باہر جھانکتے ہوئے اپنی دونوں ہتھیلیاں ملتے ہوئے کہا۔ ’’نہ جانے برف باری کب ہوگی۔ سات دن ہوگئے، انتظار کرتے ہوئے اور اب تو واپسی کا وقت بھی آچلا ہے۔‘‘ ’’کیا ہم ایک دو دن مزید نہیں ٹھہرسکتے۔‘‘ ’’ٹھہر تو سکتے ہیں لیکن کیا پتا برف پھر بھی نہ پڑے۔‘‘
لڑکے کی مایوسی کو محسوس کرتے ہوئے لڑکی نے ایک لمحے کے لیے اپنی نظریں کھڑکی سے باہر دوڑائیں۔ دُور پہاڑی پر ایک چھوٹا سا مکان وہاں زندگی کی گواہی دیتا تھا۔ کتنے لکی ہیں یہ لوگ، کیسے خُوب صُورت ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں، نیچر سے کتنا قریب۔ ہر برس آسمان سے گرتی برف کا نظارہ کتنا مسرت انگیز ہوتا ہے۔ سوچتے سوچتے لڑکی نے اپنے سامنے بیٹھے لڑکے پر نگاہ ڈالی۔
اُس کی اپنی زندگی کے پچھلے چند روز بھی بہت مسرت انگیز تھے۔ ہر طرف خوشیوں کا رقص، زندگی کو ایک ایسی چیز میں بدل رہا تھا، جس کے سامنے سب کچھ ہیچ تھا۔ یہی تو زندگی تھی، جس کی اُسے آرزو تھی اور اُسے سب کچھ مل گیا تھا، مگر اب تھوڑی سی مایوسی بھی زندگی میں در آنے لگی تھی۔ یہ آسمان اُس کی خواہشات کو روندنا چاہتا ہے۔ کیا وہ میری خوشیوں سے جل گیا ہے کہ انتقاماً اس نے برف کو اپنے سینے میں جذب کرلیا ہے۔
لڑکے نے کافی کی چسکی لیتے ہوئے بیرے کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ ’’جی صاحب…!!‘‘ ’’یار! اس بار برف کیوں نہیں پڑ رہی ؟‘‘ ’’بس جی کچھ دیر ہوگئی ہے۔‘‘ ’’کب تک برف باری کا امکان ہے۔‘‘ ’’لگتا ہے جی، ہفتہ ایک اور اِسی طرح گزر جائے گا۔‘‘ لڑکے نے مایوسی سے لڑکی کودیکھا۔ ’’پچھلی بار برف کب پڑی تھی؟‘‘ ’’پچھلی بار تو جی دسمبر شروع ہونے سے پہلے ہی برف پڑگئی تھی۔‘‘ ’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
وائٹ روز کے مالک نے اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے اُس نوجوان جوڑے پر نگاہ ڈالی۔ نیا شادی شدہ جوڑا۔ زندگی میں لمبے سفر پر نکلنے سے پہلے خوشیاں سمیٹتا ہوا مَری کی پرُفضا وادیوں کا نظارہ کرتا اور برف باری کے انتظار میں بےچینی سے مال روڈ پر ٹہلتا۔ اس برس جنوری کا آغاز تھا اور برف باری کا دُور دُور تک نام ونشان دکھائی نہ دیتا تھا۔
گزشتہ برس اُس کے ہوٹل میں آغاز دسمبر ہی سے گاہکوں کا تانتا بندھ گیا تھا اور اُس نے خُوب کمائی کی تھی، مگراس برس تو لگتا تھا، جیسے سیزن میں ہوٹل کے اخراجات بھی مشکل ہی سے پورے ہوں گے۔ ہوٹل کے مالک نے باورچی خانے میں بیٹھے ویٹرز کو ایک دوسرے سے خوش گپیاں کرتے اور قہوے کی چسکیاں لیتے دیکھا۔
یہ بھی کوئی زندگی ہے کبھی رئیس اور کبھی غریب۔ ایک سال سیزن اچھا لگا، تو وارے نیارے اور اگر سیزن خراب گیا تو روٹی کے لالے۔ ہوٹل کی خالی میزوں کو دیکھتے ہوئے اُس کے دل میں ہول اُٹھنے لگے۔ اُس نے چشمِ تصورسے پچھلے برس کو یاد کیا، جب اِن میزوں سے جگ مگاتے قہقہے بلند ہوتے، ہنستے مُسکراتے چہرے سجے تھے، زندگی کی حرارت سے بھرپور۔ وہ حرارت جسے برف کی خنکی نے مزید دہکا دیا تھا۔ بچّے، نوجوان، جوان، ادھیڑ عُمر، اپنے اپنے انداز میں زندگی سے لُطف لیتے۔ شباب کی حدوں میں قدم رکھتے لڑکےلڑکیاں اپنے جذبات و احساسات میں ڈوبے۔ مگر اس وقت یہ خیالی ہال اُسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کی بےقراریوں کے باوجود برف پڑنے میں ابھی دیر ہے۔
پہاڑی ڈھلوان پر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے اور اپنی کمر پردھرے بوجھ کوجھیلتے، اُس بوڑھے نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا اور اطمینان کا سانس لیا۔ ’’ شُکر ہے کہ اِس بار ابھی برف باری کا آغاز نہیں ہوا۔ پچھلے برس تو بیٹے کے پیسے آنے سے پہلے ہی برف پڑ گئی تھی۔‘‘ اُس نے ابھی ضروریاتِ زندگی کا ذخیرہ بھی نہیں کیا تھا کہ سفید چادر نے سبزے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اُسے یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے وقت سے پہلے ہی کسی جوان آدمی کے بالوں میں سفیدی نے ڈیرے ڈال دیے ہوں۔ تب کتنی مشکل ہوئی تھی۔
بچّوں کے اسکول تو چلو بند ہوگئے، مگر چار پانچ ماہ کا راشن گھر میں نہیں تھا اور اُس کے بغیر پانچ افراد کا سردی کے موسم میں زندہ رہنا، زندہ درگور ہونے کے برابر تھا۔ وہ تو بھلا ہو، اُس کے بیٹے کے دوستوں کا، جنھوں نے اناج اور لکڑیاں جمع کرنے میں اُس کی مدد کی۔ یہ الگ بات ہے کہ آٹھ روپے سیر والا گندم کا آٹا، اُسے پندرہ روپے فی سیر پڑا۔ وہ جانتا تھا کہ اِس کے بنا کوئی چارہ نہیں، مگر اس بار ایک تو بیٹے نے پیسے وقت پر بھیج دیے تھے، دوسرا اُس نے تین چار چکر لگا کر گھر کی ضروریات کے مطابق چیزیں جمع کرلی تھیں۔
اُس کی بہو نے جو کچھ بتایا تھا، وہ سب لاچُکا تھا اور چند چیزیں جو رہ گئی تھیں، وہ آج لیے جارہا تھا۔ بوڑھے نے قدم روکے اور بوجھ کو اتار کر ایک پتھر پر رکھا۔ ماتھے پر آئے پسینے کے قطروں کو پونچھا۔ سردی کافی تھی، لیکن چار میل کی پُرمشقّت مسافت نے اُس کے جسم کے مسام کھول کر پسینے کے قطروں کو جسم پر اچھال دیا تھا۔ اُس نے تھوڑی دیر سستانے کی نیّت سے کمر پتھر کے ساتھ ٹیکی۔ پہاڑی کے اوپر آدھے میل کی دوری پر اُس کا گھر تھا، جہاں اُس کی بہو، پوتے اور پوتی اُس کی واپسی کی راہ دیکھ رہے تھے اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مَری کے چمکتے دمکتے ہوٹلوں کی بوسیدگی سے اٹے پچھواڑے تھے۔
گندے پانی کے نکاس نے بڑی بڑی سیاہ دھاریاں ڈال دی تھیں۔ ابھی تو شہر ویران ہے۔ یہ لوگ پتا نہیں کیوں برف پڑتے ہی اپنے گھروں سے نکل پڑتے ہیں۔ ان پہاڑوں پر چلے آتے ہیں، جن کے اپنے باسی برف گرتے ہی گھروں کے دروازے بند کرکے آگ کے گرد بیٹھ جاتے ہیں اور بے کار دن اور بےکار راتیں اس انتظار میں گزار دیتے ہیں کہ کب سفید چادر ہٹے، سبز کونپلیں نمودار ہوں اور کب زندگی اپنے نئے سفر کا آغاز کرے۔ احمق لوگ شاید ہماری بے بسی کا مذاق اُڑانے آتے ہیں۔
لعنت بھیجو، اِن پر، وقت اور روپیا بہت ہے اِن کے پاس اور کرنے کو کوئی کام نہیں۔ تب ہی تو بےکار اِدھر چلے آتے ہیں۔ خود اُس کے دل میں کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ نیچے وادیوں میں اپنا گھر بنائے اور اپنے پوتے پوتی کو اچھی تعلیم دلوائے، مگر اُس کا بیٹا کراچی میں کام کرتا تھا۔ سال میں ایک آدھ بار آتا اور واپس چلا جاتا۔ بوڑھے نے ڈوبتے سورج پر نگاہ ڈالی۔ بوجھ اپنی کمر پرلاوا اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا گھر کو روانہ ہوگیا۔
اپنے پہاڑی گھر کے مختصر سے صحن میں مرغیوں کو ڈربے میں بند کرکے جوان عورت نے بکری اوراُس کے بچّے کو باندھا۔ دُور مَری پر نگاہ ڈالی، جہاں اُس نےچند ایک بار گزرتے ہوئے بڑے بڑے ہوٹل باہر سے دیکھے تھے۔ پہاڑی پر کھڑے ہوکر مَری ہاتھ بھر کی دوری پر محسوس ہوتا، مگر چلو تو فاصلہ پانچ چھے کوس سے کم نہ ہوگا۔ مَری جانے کا اتفاق تو شدید بیمار ہو کر ہی ہوتا تھا، علاج کی سہولت وہیں مل سکتی تھی۔ ایک دوبار اپنے خاوند کے ساتھ رشتے داروں سے ملنے کے لیے جاتے ہوئے بھی وہ مَری سے گزری۔ جہاں بڑی سڑک پر چلتے پِھرتے مرد وزن اُسے کسی دوسری دنیا کے باسی محسوس ہوئے۔
ایسے نفوس جن کے لیے اُسے اپنے اندر پسند یا ناپسند کا کوئی جذبہ محسوس نہ ہوا۔ اُسے لگا کہ وہ سب اُس کی دنیا سے باہر کہیں آباد ہیں۔ دو مختلف دنیاؤں کے باسی، ایک دوسرے کے بارے میں شاید کچھ بھی محسوس نہیں کرسکتے۔ اُس نے تھکے اندازمیں دُور نیچے نگاہ ڈالی، جہاں اُسے ایک آدمی بوجھ اُٹھائے اوپر آتا دکھائی دیتا۔ یقیناً وہ اس کا سُسر تھا، جو برف باری شروع ہونے سے پہلے گھر میں سارے سیزن کے لیے راشن اور ضرورت کی دوسری چیزیں جمع کررہا تھا۔ اُس کے بیٹے اور بیٹی پڑوسیوں کی طرف کھیلنے گئے تھے۔ انھیں اب واپس آجانا چاہیے کہ رات کی تاریکی پھیلنے کے بعد دو چار سو گز کا فاصلہ بھی بہت لمبا ہوجاتا ہے۔
عورت نے ایک بار آسمان پر نگاہ ڈالی۔ بس، اب دو تین دن میں برف ضرور پڑے گی اور اُسے آنے کا ایک اور بہانہ مل جائے گا۔ اپنے شوہر کے بارے میں کبھی کبھی سوچتے ہوئے اُس کا پورا وجود غصّے سے بھرجاتا اور پھر وہ اپنا غصّہ اپنے بچّوں پر نکال دیتی۔ ایسے میں اُس کا سُسر خالی خالی نگاہوں سے اُسے دیکھے جاتا، مگر بولتا کچھ نہیں۔ جب تک ساس زندہ تھی، وہ اُس سے لڑ جھگڑ کر اپنے غصّے کو باہر نکال دیتی تھی، مگر اب تو یہ غصّہ اُسے اپنی ہڈیوں میں اُترتا محسوس ہوتا اور اس ڈر سے کہ کہیں اُس کا وجود ہی نہ چٹخ جائے، وہ سامنے آنے والے بچّے کی دھنائی کر دیتی اور بعد میں بہت پشیمان ہوتی، مگر وہ جلدی کیوں نہیں آتا۔ سال سال گزر جاتا ہے اور بس چند روپے ہر ماہ بھیج دیتا ہے۔
اگر آنہیں سکتا تو اُنھیں ہی اپنے ساتھ لے جائے۔ اِن پہاڑوں پر کتنے گھر سُونے پڑے ہیں، جن کے مکین نیچے دُور میدانوں میں جا آباد ہوئے ہیں۔ وہ آتا ہے، نہ اُنھیں اپنے پاس بلاتا ہے۔ بس ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتا ہے۔ پچھلے مہینے اُسے آنا تھا، مگر خط آگیا کہ وہ بیمار ہوگیا ہے، نہیں آسکے گا۔ یہ مہینا بھی انتظار کرتے گزرا۔ اُسے برف باری کی خبرمل گئی تو چار پانچ ماہ تک تو آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اُس نے التجا بھری نگاہوں سے آسمان کو دیکھا اور منّت سماجت کرنے لگی۔ ’’اس بار اے مہربان آسمان! برف کو اپنے فراخ سینے میں سنبھالے رکھنا۔‘‘