مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(اختر رضا سلیمی)
اختر رضا سلیمی، لائقِ ذکر، قابلِ قدرناول نگار، شاعر اور مدیر، 1974ء میں کیکوٹ، ہری پور میں پیدا ہوئے۔ اسلام آباد میں مستقل قیام، اکادمی ادبیات سے وابستگی، معاصر ادب کا نمایاں تر نام تخلیقات کے کئی زبانوں میں تراجم، ادبی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازے گئے۔ خواب اور حقیقت کے مابین تحیّر، ماضی کے خیال و سواد، علاقائی تہذیب و ثقافت، فلسفہ ہائے حیات، فنا و بقا، اور سچائی کی کھوج دل پسند موضوعات ٹھہرے۔
اختر رضا سلیمی نے اپنی ادبی زندگی میں اب تک فقط ایک افسانہ تحریر کیا جو موقر رسالے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔ ’’ایک کہانی، جو لکھی نہ جاسکی‘‘ نامی افسانہ دراصل ماجرا ہے، ایک مصنّف کا، جسے کرداروں کے دماغوں میں اُترنے کا لپکا ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اُس نے ایک جیتے جاگتے غیرمعمولی کردار کے ذہن میں اُترنے کی کوشش کی، اور وہاں اُس نے جو پایا، وہ اس کہانی کو غیرمعمولی بنا دیتا ہے۔
کل رات جب، ایک کہانی کار کے طور پر، مَیں نے اُس کے دماغ میں اُترنے کی کوشش کی، تو وہاں ہر طرف اندھیراتھا۔ رُوح تک کو منجمد کر دینے والاسرد اندھیرا۔ شاید بِگ بینگ سے پہلے خلا کے ذہن میں بھی ایسا ہی اندھیرا تھا۔ اس اندھیرے میں جو چیز واضح طور پر محسوس کی جاسکتی تھی، وہ صرف سناٹا تھا، ایک ابدی سناٹا۔ اندھیرے اور سناٹے کی اس دنیا میں، مَیں نہ جانے کتنی دیر ٹامک ٹوئیاں مارتا اور اپنی کہانی کا مواد تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن مجھے کچھ سُوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے یوں لگا، جیسے مَیں بھی اِسی دنیا کا حصّہ بنتا جارہا ہوں۔
دیکھنے اور سُننے کی حِس تو خیر موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہ تھی کہ مَیں کوشش کے باوجود نہ تو کچھ دیکھ رہا تھا اور نہ ہی سُن پارہاتھا،البتہ سونگھنے، چکھنےاور چُھونے کے حواس کافی دیر تک میرا ساتھ دیتے رہے۔ مَیں نے اس اندھیرے کو سونگھا تواس میں وہی سرانڈ تھی، جو سرد راتوں میں سیلن زدہ اندھیرے سے اُٹھتی رہتی ہے۔ پھر مَیں نے اسے چکھنے کی کوشش کی تو اس کا ذائقہ مجھے پھپھوندی لگی روٹی جیسا لگا اور جب میں نے اسے چُھوا تو یہ مجھے ایک سیاہ دیوار کی طرح محسوس ہوا۔ ایک ایسی دیوارکی طرح، جو میرے وجود سمیت ہرشےکو محیط تھی۔
پھر مجھے لگا، جیسے میری چکھنے اور سونگھنے کی حِس بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے۔ کچھ ہی دیر میں سیلن زدہ اندھیرے کی سرانڈ اور پھپھوندی لگی روٹی جیسا اس کا ذائقہ بھی کافور ہوگیا، البتہ سیاہ دیوار اب بھی میرے پورے وجود کو محیط تھی اور مَیں پہلے کی طرح اُسے اب بھی محسوس کرسکتا تھا۔ مَیں کافی دیراس دیوار کو پھلانگنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن آخرکار، تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
اس تھکاوٹ بھری ناکامی نے مجھ پر گھبراہٹ طاری کردی اور میرا دل بیٹھنے لگا مگر اس سے پہلے کہ میرا دم گھٹنا شروع ہوتا، مجھے ایک دھماکا خیز چیخ سُنائی دی، جس نے نہ صرف میرے تمام احساسات بحال کر دیے، بلکہ مجھے واپس باہر محسوسات کی دنیا میں بھی لا پھینکا۔ جہاں وہی کمرا تھا، مَیں تھا، میری مطالعے کی میز تھی، کاغذوں کا پلندہ تھا اور میرے ہاتھ میں وہی قلم، جس نے کئی کہانیاں اُگلی تھیں۔
لیکن آج کئی گھنٹوں کی مغزماری کے باوجود وہ دم بخود تھا اور سامنے پڑا خالی صفحہ میرامنہ چڑا رہا تھا اورمجھے یوں دہشت زدہ کر رہا تھا، جیسے گارشیا مارکیز کو کیا کرتا تھا۔ اس فرق کے ساتھ کہ اس کے لیے خالی صفحے کی یہ دہشت دم گھٹنے کی دہشت سے کم تھی، جب کہ میرے لیے اس سے بھی کہیں بڑھ کر۔
اگر اس دھماکا خیزچیخ کی گونج میرے ذہن میں دوبارہ تازہ نہ ہوتی، جو مَیں نے کچھ دیر پہلے سُنی تھی، تو شاید مَیں زندگی بھر اس دہشت سے چھٹکارا نہ پا سکتا۔ یہ چیخ تو خیر، مَیں پہلے بھی کئی بار سُن چکا تھا، لیکن سیلن زدہ اندھیرے کی سرانڈ، پھپھوندی لگی روٹی جیسے اس کے ذائقے اور دیوار کی طرح سخت اس کی تہ سے پہلے اور بعد میں وہاں کیا تھا اس کے بارے میں، مَیں کچھ نہ جان سکا اور شاید آئندہ بھی نہ جان سکوں۔
یہ میری پہلی ناکامی نہیں تھی، مَیں اِس سے پہلے بھی بارہا اس کے دماغ میں اُترنے اور وہاں سے کہانی کا موادحاصل کرنے کی کوشش کر چُکا تھا۔ حالاں کہ ایک کام یاب لکھاری کے طور پر مَیں بےشمار کرداروں کے دماغ میں اُتر چُکا تھا اور انھیں اس خُوب صُورتی سے نبھایا تھا کہ وہ اپنے آپ کو قاری پر یوں کھول کے رکھ دیتے کہ اُسے اپنا عکس لگتے۔ ان میں سے کئی کردار تو ایسے بھی تھے، جو بالکل تخیلاتی تھے۔
جن کا وجود بظاہر تو میری کہانیوں سے باہر کہیں نہیں تھا، مگر درحقیقت ہر کہیں تھا۔ (اگر نہ ہوتا تو میرا قاری کبھی ان کےساتھ نہ چل سکتا، جیسےمیں اس کردار کے ساتھ نہیں چل پا رہا) لیکن اکثر کردار مَیں اپنے اردگرد ہی سے اُٹھاتا تھا۔ بس، ان کا نام اور حلیہ وغیرہ تبدیل کردیتا یا پھر دو کرداروں کی عادات و خصائل کو ایک کردار میں یک جا کردیتا۔ اس سے ایک طرف میرے کردار کی شخصیت میں تنوّع آجاتا، تو دوسری طرف میں اپنے جاننے والے قاری پرثابت کردیتا کہ میرا یہ کردار میرا اپنا وضع کردہ ہے، حالاں کہ یہ محض اُس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات تھی۔
میرے بیش تر کرداروں کی طرح، میرا یہ کردار بھی میرا دیکھا بھالا تھا، بلکہ مَیں اسے اپنے بچپن اور اس کے لڑکپن ہی سے جانتا تھا۔ آج سے کوئی پینتیس سال پہلے، جب مَیں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تھا، سرکاری دستاویزات میں میری عُمر پانچ سال ہونے کو تھی، لیکن میری حقیقی عُمر چار سال سے زیادہ نہیں تھی اور مَیں یہ بات پورے وثوق سےکہہ سکتا ہوں، کیوں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن تک، جب مَیں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تھا، مجھے اسکول میں داخل نہیں کروایا گیا تھا۔
مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد جب میرے بڑے بھائی کو اسکول میں داخل کروایا گیا تھا اور مَیں نے رو رو کر آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا کہ مَیں بھی اسکول جاؤں گا، تومیرے والدین نے،میری ضد سے تنگ آکر مجھے بھی ماموں کے ساتھ اسکول بھیج دیا تھا۔ ماموں مجھے لے کراسکول پہنچے اور اسکول انتظامیہ سے میرے داخلے کی بابت درخواست کی تو انتظامیہ نے یہ کہہ کر داخلے کی درخواست رد کردی کہ یہ ابھی چار سال کا لگتا ہے، جب کہ اسکول میں داخلے کے لیے عُمر کم ازکم پانچ سال ہونا ضروری ہے۔
مَیں نے جب وہاں بھی ایک مرتبہ پھر آسمان سر پر اُٹھانے کی کوشش کی تو ماموں نے اسکول انتظامیہ سے دوبارہ درخواست کی کہ بےشک عُمر پانچ سال لکھ لیں، لیکن اِسے داخل کر لیں۔ یوں میں ایک سال کی اضافی عُمر کے ساتھ، جسے میں نے کبھی بسر نہیں کیا، اسکول میں داخل کروادیا گیاتھا۔
وہ پہلی ہی نظر میں میری توجّہ کا مرکز بن گیا تھا۔ شاید اس کی وجہ لوہے کی وہ موٹی زنجیر بھی تھی، جس کا ایک سِرا اُس کی گردن کے گرد، جب کہ دوسرا کمرے کے عین وسط میں اِستادہ ستون سے لپٹا ہوا تھا۔ مَیں نے اس سے پہلے کبھی کسی انسان کو اس طرح بندھے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میرے دل میں اس کے قریب جانے کی خواہش اُبھری تھی، لیکن اگلے ہی لمحے میں باز آگیا کہ مجھے وہ چوٹ یاد آگئی تھی، جو بندھے ہوئے بیل کو چھیڑنے کے باعث مجھے آئی تھی کہ اُس نے اپنے سینگوں سے اُٹھا کر مجھے چارے کی کھرلی میں پٹخ دیا تھا۔
اگر ماں بروقت نہ پہنچتی تو شاید وہ مجھے جان ہی سے مار دیتا۔ ہمارے بیل کی طرح اُس کے تن پر بھی کپڑے نہیں تھے، لیکن وہ بیل کی طرح خُود نہیں کھا سکتا تھا، اس کی ماں اسے اپنے ہاتھ سے کِھلاتی تھی۔ اُس روز بھی، اس کی ماں اس کے منہ میں لقمے ڈال رہی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مَیں نے اس کی ماں کو ایسا کرتے دیکھ کر اپنی ماں سے کہا تھا۔ ’’یہ اتنا بڑا ہوگیا ہے، تب بھی اپنی ماں کے ہاتھ سے کھانا کھاتا ہے۔
مَیں تو خُود کھا لیتا ہوں۔‘‘ اوراس کی ماں نے، جو میری ماں کی دُور پار کی رشتے دار تھی، میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’تُو اچھا بچہ ہے ناں اِس لیے۔‘‘ ’’ہاں یہ تو گندا بچہ ہے، دیکھو نہ اتنا بڑا ہو کر بھی کپڑے نہیں پہنتا۔‘‘ یہ سُنتےہی میری ماں نے مجھے جھڑک کر کہا تھا۔ ’’بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘
جب سرکاری کاغذات میں میری عُمر پورے پانچ سال ہوئی، تو مجھے اُس سے ملنے کے کئی مواقع میسّر آئےکہ اُس کاگھر میرے اسکول کے بالکل ساتھ تھا۔ اگرچہ راستہ اس کے گھر کے پچھواڑے سے ہو کر اسکول کے مین گیٹ تک جاتا تھا، لیکن مَیں اُسے دیکھنے کے لیے دانستہ صحن سے ہوکرگزرتا، تاکہ جاتے جاتے اُسے دیکھتا چلوں۔ مَیں جب وہاں سے گزرتے ہوئے اُس کے کمرے میں جھانکتا، توعموماً اس کی ماں، اُسے اپنے ہاتھ سے ناشتا کروا رہی ہوتی یا اس کی پوٹی صاف کر رہی ہوتی۔ ’’اتنا بڑا ہوگیا ہے اور پوٹی بھی خُود نہیں کر سکتا۔‘‘
مَیں دل ہی دل میں یہ فقرہ دہراتا، ایک نظر اس کے ننگ دھڑنگ وجود پر ڈالتا اور چلتا بنتا۔ ہاں،اگرکسی روزاُس کی ماں کمرے میں موجود نہ ہوتی تو مَیں چُپکے سے اس کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا۔ کبھی کبھار کھانس کر اُسے اپنی طرف متوجّہ کرنے کی کوشش کرتا، یا اُس کی ساکت آنکھوں کےآگے ہاتھ لہراتا، مگر وہ میری موجودگی سے بے خبر، اپنی ہی گندگی میں لتھڑا، بےحس و حرکت پڑا رہتا۔ لیکن مَیں کبھی اُسے چُھونے کی ہمّت نہ کرسکا۔ اس کی ایک وجہ وہی بیل والا حادثہ ہو سکتا ہے لیکن اس کا گندگی میں لتھڑا ہونا بھی اس کی ایک اہم وجہ تھی۔
بہت دنوں بعد ایک دن میں نے ہچکچاتے ہوئے اسے چُھوا اور اُس نے ہلکی سی جھرجھری لی، تو مجھے تجسّس ساہوا۔ مَیں نے کمرے کے کونے میں، چارپائی کے نیچے رکھی، اس کے باپ کی سوٹی اٹھائی اور کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر، جہاں اُس کا ہاتھ نہ پہنچ سکے، اُس کے سینے میں زور سے چبھوئی تو اُس نے ایک زوردار چیخ ماری اور مَیں ڈرکر یوں بھاگا کہ کمرے کی دہلیز سےٹھوکر کھا کر گرتے گرتے بمشکل بچا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چیخ مارتے ہوئے اُس کا چہرہ بہت ڈراؤنا ہوگیا تھا۔
اسکول پہنچتے پہنچتے مجھے بخار ہوگیا تھا اور ماسٹر نے مجھے میرے بڑے بھائی کے ساتھ گھر بھیج دیا تھا۔ اُس روز مَیں ساری رات نہیں سو سکا تھا، جیسے ہی میری آنکھیں بند ہوتیں، سامنے اس کا وہی ڈراؤنا چہرہ آجاتا اور پھر اگلے ہی لمحے مجھے اُس کی چیخ سنائی دیتی اور میرے منہ سے بھی اُس سے ملتی جلتی چیخ نکل جاتی۔ ساری رات امّاں اور ابّا میرے ساتھ جاگتے رہے تھے اور اگلے دن وہ مجھے سائیں سرکار کے مزار پر لے گئے تھے، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ اُن کی قبر کی مٹی کھانے سے آسیب جاتا رہتا ہے۔
مجھے یہ تو یاد نہیں کہ مَیں کتنے دن بعد صحت یاب ہوا تھا، لیکن یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس کے بعد مَیں نے اُس زمانے میں کبھی اس گھر کا رُخ نہیں کیا۔ امّاں جب بھی اُن کےگھر جانے کے لیے تیار ہوتیں، مَیں کھیل کُود کا بہانہ کر کے ٹال دیتا۔ پرائمری کے بعد مجھے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑے بھائی کے پاس شہر بھیج دیا گیا اور مَیں اُس چیخ کو بھول گیا۔
اگرچہ مَیں ہر سال چُھٹیوں میں گاؤں آیا کرتا تھا، لیکن کبھی اُن کے گھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ تاہم، اس کے بارے میں، مَیں جان گیا تھا کہ نہ تو وہ کچھ دیکھ سکتا ہے، نہ سُن سکتا ہے اور نہ ہی بول سکتا ہے۔ دوسری بار مجھے اُس کی یہ چیخ تب سنائی دی، جب مَیں ایک شادی میں شرکت کی غرض سے گاؤں آیا ہوا تھا۔ یہ اُس کے چچا زاد کی شادی تھی، جس کا مکان اُس کے مکان سے جُڑا ہوا تھا۔
مَیں اتفاق سے کچھ دوستوں کےساتھ، انھی کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا، جب کسی بچّے نے اُسے چھیڑا تھا۔ اُس کی چیخ سن کر مَیں اس کے کمرے میں گیا تھا۔ اُس کے چہرے مُہرے میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ وہ اُسی طرح ننگ دھڑنگ تھااوراس کی داڑھی، مونچھ اور بال بڑھے ہوئے تھے، تاہم زنجیر بدستور اُس کے گلے میں تھی اور وہ وحشیوں کی طرح اُچھل رہا تھا۔ تب سے وہ مجھے نہیں بھولا۔ مَیں جب بھی کوئی کہانی لکھنے بیٹھتا، وہ میرے دماغ میں عود کر آتا، جیسےاس کی خواہش ہوکہ میں اُسے اپنی کہانی میں جگہ دوں۔ لیکن مَیں کوشش کے باوجود اُسے کسی کہانی میں جگہ نہ دے سکا۔
’’مَیں کبھی نہ جان سکی کہ اُس کے احساسات کیا ہیں۔ جب وہ پیدا ہوا تو بالکل نہیں رویا تھا۔‘‘ یہ بات اُس کی ماں نے مجھے تب بتائی تھی، جب مَیں نے آج سے دس سال پہلے، پہلی دفعہ فیصلہ کیا تھا کہ مَیں کسی کہانی میں اُس کا کردار ڈویلپ کروں گا اور اِسی غرض سے اُس کی ماں کے پاس گیا تھا۔ ’’اِس کی دائی نے مجھے بتایا تھا کہ مُردہ پیدا ہوا ہے اور جب اُس نے میرے میاں کو جا کر بتایا تو وہ بھی بغیر اِسے دیکھے کفن دفن کا انتظام کرنے لگا۔ لیکن کوئی دو گھنٹے بعد،جب انتظامات مکمل ہوگئے، تو اِس نے ایک چیخ مار کر اپنی زندگی کا اعلان کردیاتھا۔ تب سے وہ اپنے ہونے کا احساس اِسی چیخ کے ذریعے دلاتا ہے۔
وہ بھوکا ہو، تب بھی چیخ ہی کی صُورت میں اظہار کرتا ہے۔ مَیں ہمیشہ کوشش کرتی ہوں کہ اسے وقت پر کھانا ملے، تاکہ مجھے اِس کی دل دوز چیخ نہ سننی پڑے۔ ایک دن مَیں کسی کام سے گئی اور دیرسےپلٹی تو مَیں نے دیکھا کہ وہ چارپائی کے نیچے رکھی کھاری میں سے سبز مرچیں نکال کر اُسی مزے سے کھا رہا تھا، جس مزے سے کھانا کھایا کرتا تھا۔
وہ آدھا کلو کے قریب مرچیں چٹ کرچُکا تھا لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اُس نے سی تک نہیں کی۔ مَیں نے ہمیشہ دُعا کی ہے کہ خدا نبی پاکﷺ کے صدقے اِسے مجھ سے پہلے اُٹھا لے، تاکہ مَیں مطمئن ہو کر مروں۔ نہیں تو جب یہ چیخے گا، تو مجھے قبر میں بھی چین نہیں آئے گا۔ اے کاش! اس کی دائی کی خبر سچی ہوتی۔‘‘ آخری فقرہ ادا کرتے ہوئے وہ رو پڑی تھی۔
مَیں نے اُس کی ماں سے حاصل کردہ معلومات اور اپنے مشاہدے کو ذہن میں تازہ کر کے کئی بار اُس کا کردار تراشنے کی کوشش کی، لیکن ہربار ناکام رہا۔ کہانی کسی ایسے کردار کو قبول ہی نہیں کرتی، جو اپنے آپ کو قاری پر منکشف نہ کر سکے۔ اور آج اس کو مَرے ہوئے اکتالیسواں دن ہے۔
اُس کی قبر کے کتبے پر(جو کل ہی نصب کیا گیا) درج اس کی تاریخِ پیدائش کے مطابق، اُس کی عمر چھیالیس سال چار ماہ اٹھارہ دن تھی، لیکن سرکاری دستاویزات میں درج میری ایک سالہ اضافی عُمر کی طرح اُس کی تمام عُمر اضافی تھی، جسے اُس نے کبھی بسر ہی نہیں کیا۔ کل جب مَیں اس کے چالیسویں کےدرود میں شرکت کے لیے گیا، تو اُس کی ماں کے پاس کافی دیر بیٹھا رہا۔
اُس کے چہرے سے اگرچہ اپنے بیٹے کی جدائی کاغم جھلک رہا تھا،مگرمجھے وہاں ایک نادیدہ سا اطمینان بھی دکھائی دیا۔ وہاں سے واپسی پر مَیں نے سرِشام ہی سوچ لیا تھا کہ آج رات مَیں ایک مرتبہ پھر اُس کے نادیدہ دماغ میں اُتر کر اپنی کہانی کے لیے کوئی مواد حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ لیکن…وہاں سیلن زدہ اندھیرے کی سرانڈ، پھپھوندی لگی روٹی جیسے اس کے ذائقے اور دیوار کی طرح سخت اس کی تہ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔