• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات ایک ایسی مضبوط بنیاد پر قائم ہیں کہ ان کا کوئی متبادل نہیں۔ یہ دوستی وقت اور حالات کی کسوٹی پر پوری اتری ہے،جو باہمی اعتماد،احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہے۔اس رشتے کی گہرائی تک کوئی دوسرا ملک پہنچ ہی نہیں سکتا،چین کیساتھ پاکستان کا مشترکہ دفاع کارشتہ ہے،ہمارا نفع ہی نہیں نقصان بھی ایک ہے،دوست ہی نہیں دشمن بھی ایک ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی بر آمدی منڈی ہے۔پاکستان کی کل 32ارب ڈالرکی برآمدات میں امریکہ کاحصہ سب سے زیادہ یعنی 18.31ہے،جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔دوسری جانب عالمی سیکورٹی سیٹ اپ میں امریکہ کا حصہ اور کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔عالمی حالات،خطے کی سیکورٹی کی صورتحال اور پاکستان کے معاشی اور دفاعی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح ہے کہ وہ کسی ایک بلاک کا اسیر نہیں بنے گا۔پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر عالمی سطح پر متوازن تعلقات استوار کرنے کا خواہشمند ہے، جو اسے معاشی استحکام اور سفارتی وقار عطا کرے۔ آرمی چیف کے دورہ امریکہ سے لیکر ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کی ملاقاتوں تک ہونے والی بات چیت میں دوطرفہ اقتصادی شراکت داری پر زور دیا گیاجو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور سرمایہ کاری،تجارت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے مواقع پیدا کرنا معاشی بحالی کیلئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کیساتھ تعاون نہ صرف معاشی فوائد لاسکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔یہ تعلقات چین کیساتھ دوستی پر اثر انداز نہیں ہونگے، کیونکہ پاکستان کی پالیسی ہر ملک کے ساتھ آزادانہ اور باوقار تعلقات پر مبنی ہے۔ خطے کے حالات پاکستان کیلئے ایک پیچیدہ جغرافیائی وسیاسی منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔افغانستان کی صورتحال، بھارت کی ہٹ دھرمی، چین اورامریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش اور ایران کے اثرات اس منظر نامے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ایسی صورتحال میں امریکا کیساتھ متوازن تعلقات پاکستان کو سفارتی اور معاشی استحکام دینے میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں۔ امریکا کے ساتھ حالیہ پیش رفت ایک مثبت اشارہ ہے۔ اگر یہ رابطے ٹھوس اقدامات میں تبدیل ہوئے تو پاکستان نہ صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرسکے گا بلکہ خطے میں ایک مضبوط اور خوشحال ملک کے طور پر اپنی شناخت منوائے گا۔ اس راستے میں چیلنجز ضرور ہونگے۔ جبکہ چین کے ساتھ دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک ناقابل تبدیل ستون ہے،لیکن یہ دوستی دیگر ممالک کیساتھ تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنی آزادانہ پالیسی پر قائم رہتے ہوئے عالمی برادری کیساتھ تعاون کو فروغ دے،کیونکہ مضبوط اور مستحکم دفاع مستحکم معیشت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 8 سال بعد پاکستان اور امریکا کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات انتہائی مفید رہی۔ پاکستان دنیا میں تنازعات کا پر امن حل چاہتا ہے۔ پاکستان اس ماہ کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت کیلئے منتخب ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان سفارتی سطح پر بھی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ چین آہنی برادر ہے، ہم امریکا کیساتھ بھی بہترین تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ امریکا سے مضبوط تعلقات چاہتے ہیں لیکن ان تعلقات کو چین کے ساتھ دوستی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔اسحاق ڈار کی یہ بات بالکل درست ہے کہ چین اور امریکا دونوں ہی بہت اہم ملک ہیں اور ہمیں دونوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ ہم ان میں کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرے کیساتھ اپنے رشتے کو قربان نہیں کر رہے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہئے۔ امریکا اور چین کے مابین بھی اقتصادی تعلقات ہیں اور دونوں ملک ان تعلقات سے مستفید ہو رہے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں وہ فیصلے کرنے چاہئیں جن سے ہمیں اقتصادی، سماجی، سفارتی، دفاعی اور تزویراتی حوالے سے فوائد حاصل ہوں ۔دنیا بھر میں بین الاقوامی تعلقات اسی قاعدے کو سامنے رکھ کر پروان چڑھائے جاتے ہیں اور ہر ملک اپنے فائدے کیلئے دوسرے کیساتھ معاملات طے کرتا ہے۔اس کیساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کیساتھ ہمارے تعلقات امریکا کی نسبت مختلف نوعیت کے ہیں۔ چین ہمارا شراکت دار ہونے کے علاوہ ہمسایہ بھی ہے اور اس نے کئی اہم مواقع پر پاکستان کا ساتھ دیکر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ہمارا سچا خیر خواہ ہے۔ اسلئے ہمیں چین کیساتھ اپنے تعلقات بہت عزیز ہیں۔ بین الاقوامی فورمز پر کئی بار چین نے ایسے حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا جب ہمیں واقعی چین جیسے ملک کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ پاکستان اور چین کی باہمی دوستی اور اعتماد کی ہی ایک شکل چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک ہے جو صرف ان دونوں ملکوں کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کیلئے ایک گیم چینجر منصوبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے ہر مرحلے سے پاکستان کی معیشت اور معاشرت دونوں کو فوائد ملنے کی امید ہے۔ماضی کے ان واقعات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو امریکا کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے ہمیں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین