تازہ ترین تحقیق و دریافت کے مطابق اس دھرتی پر موجود لطیف و کثیف عناصر (Elements) کی تعداد ایک سو اٹھارہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں، جنکی مختلف تراکیب سے اس زمین پر موجود اجسام اور ان کی حیات و ممات کو ماخوذ کیا گیا۔ بے شک ان عناصر کی تعداد مزید بڑھ جائے۔ ان عناصر کا وجود پانی، ہوا، مٹی اور آگ (توانائی) سے ہی مشتق ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس کرۂ ارض کے مظاہر زندگی ان چار نعمتوں یعنی پانی، ہوا، مٹی اور توانائی کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ حیرت ہے انسان ان نعمتوں سے ہر وقت فیض یاب رہنے کے باوجود ان چاروں کی ناقدری بلکہ مخاصمت اور دشمنی میں مصروف ہے اور دَرپے آزار رہتا ہے۔ اپنی بے لگام صنعتی سرگرمیوں اور خطرناک گیسوں کے اخراج سے ہوائوں کو آلودہ کرتا ہے۔ انسان اپنی حریص کاروباری سرگرمیوں سے بدنام زمانہ گیسز سی ایف سیز، ہائیڈروفلوروکاربن، ہیلنز، برومائیڈز اور ٹیٹراکلورائیڈز سے قدرتی خلائی اوزون پر حملہ آور ہو کر اسے غائب کر رہا ہے اور یوں سورج کی کرنیں جو اس اوزون میں غسل کر کے مصفا ہوتی ہیں، زمین پر روشنی بکھیرتی ہیں، زندگی کا باعث ہیں، ناراض ہو کر زمین پر بیماریاں آگ برسا رہی ہیں اور گلوبل وارمنگ یعنی زمینی حدت کا باعث بن گئی ہیں، موسموں کو تلپٹ کر رہی ہیں۔ انسانی صنعتی سرگرمیوں کی پیداکردہ آلودہ ہوائوں نے آبادیوں کو اسموگ کے تباہ کن حصار میں لے لیا ہے۔ معدنیات اور اخراج نے زمین کے توازن کو ڈانواں ڈول کر دیا ہے اور تسلسل سے زلزلوں اور تباہ کاریوں کے ذریعے انسانوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے۔ مٹی، ہوا اور سورج کی نسبت پانیوں کے ساتھ انسان کا رویہ زیادہ متشدد اور سخت ہے۔ اس کے باوجود پانی اپنی فطرت کے لحاظ سے زود رنج نہیں ہے، ٹھنڈی طبیعت کا حامل ہے اور صبر سے کام لیتا ہے، بلکہ جب فریقین متحارب ہوں اور ایک دوسرے کے نقصان کے دَرپے ہوں تو اپنی طبعی ٹھنڈک سےبیچ بچائو کروا دیتا ہے۔ پانی برف کی شکل میں ہزاروں سال سے گلیشیرز کی ٹھنڈی آغوش میں بیٹھا انتظار کرتا رہتا ہے کہ کب باری آئے، پگھل کر چٹانوں سے باہر آئے، جھرنوں، آبشاروں کے ذریعے نمودار ہو اور ندی، نالوں، دریائوں کا حصہ بن کر خلق خدا کیلئے آسودگیوں اور راحتوں کا باعث بن جائے۔ بیابانوں کو نخلستان بناتا،پرندوں، جانوروں، انسانوں کی پیاس بجھاتا اور غذائی قحط کا خاتمہ کرتا، یہ پانی سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں کی نذر ہو جاتا ہے اور یوں ایک بار پھر بادلوں، بارشوں پر سوار ہو کر نئی خدمتوں کی تیاری کرتا رہتا ہے۔ لیکن افسوس زمینی مخلوق بالخصوص انسانوں کا رویہ پانیوں سے نہایت حقارت پر مبنی ہے۔ انسان اپنی غلاظتوں اور گندگیوں کو پانی کی مدد سے بہاتا ہے، پھر اس پراگندہ پانی کو حسب وعدہ مصفا بنانے کی بجائے صاف پانیوں میں ملا دیتا ہے اور اس اشتعال انگیزی کے باوجود پانی ان غلاظتوں کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ لیتاہے۔ اس کی صفائی کیلئے بہتا ہے، لمبی مسافتوں پر چلتا ہے، اپنی لہروں، تھپیڑوں کو راستے کی چٹانوں سے ٹکراتا ہے، پلٹتا ہے، آکسیڈیشن کے عمل سے گندگیوں کو پاکیزگی میں بدلتا ہے، اپنی پاک دامنی کو سمیٹتا، بہتا ہوا دوبارہ مخلوق کی بھلائی کیلئے زمینی وسعتوں پر پھیل جاتا ہے۔ سفر، حضر اور جنگ ہر جگہ پانی نے انسانوں سے وفا کی ہے۔ جنگی مشکیزوں سے لے کر آبِ زم زم تک اور اس سے بھی بالا پھر حوضِ کوثر تک، ان پاکیزہ رفاقتوں کے باوجود انسان اپنی جبلت کو مؤخر نہیں کرتا اور پانیوں سے بہت جلد محسن کشی اور بے رُخی اختیار کر لیتا ہے:
؎ نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہِ منزل سے
اگرچہ ارضی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے تیسری دنیا کے ممالک زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، لیکن ان ممالک کی اپنی بے تدبیری بھی مصائب میں اضافہ کر رہی ہے۔ جیسے بڑھتی ہوئی آبادیوں کی رہائشی ضروریات کو ندی نالوں اور دریائی راستوں پر تعمیرات اور تجاوزات کے ذریعے پورا کرنا، بلکہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ندی نالوں اور دریائوں کی پرانی گزرگاہوں پر نئی رہائشی کالونیوں، کمرشل عمارات اور کنکریٹ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا رحجان زور پکڑ رہا ہے اس عمل کو ہم نے دریائوں کی اربن ڈویلپمنٹ کا نام دے رکھا ہے اور ماحولیاتی اصلاح کے ایجنڈا میں ملفوف کر کے پیش کر رہے ہیں۔ نالہ لئی جسکی تباہ کاریاں کئی عشروں سے جاری ہیں، اسکی اصلاح اور تعمیرنو کے ایجنڈا کو تجارتی مراکز یا اربن ری جنریشن کی اجازت و تعمیرات سے نتھی کیا ہوا ہے اور یوں ہماری حرص و ہوس سیلابی پانیوں کے آسان بہائو میں رکاوٹ بن گئی ہے۔
ہم موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلابی ریلوں کا نہ صرف آسانی سے مقابلہ کر سکتے ہیں، بلکہ ان کیفیات کو توانائی اور زراعت وغیرہ کیلئے فائدہ مند بھی بنا سکتے ہیں، لیکن اس کیلئے مناسب منصوبہ بندی مشروط ہے۔ ایسی منصوبہ بندی جس کا بنیادی ایجنڈا پانیوں اور سیلابی ریلوں کی گزرگاہوں کا تحفظ اور زائد از ضرورت پانیوں کا محتاط استعمال شامل ہو، ہمیں سیلابی تباہ کاریوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ پاکستان کے شمالی دریا بالخصوص دریائے سندھ کوہِ ہمالیہ، قراقرم اور کوہِ سلیمان کی ندیوں اور برساتی نالوں کے مرہونِ منت ہیں جو اپنے ساتھ مٹی اور پتھر کے بولڈرز کو بھی لاتے ہیں، لہٰذا ان کی آبی اور برساتی گزرگاہوں کو ہر سال بولڈرز کی تباہ کاریوں سے بچایا جائے۔ شمالی علاقوں میں فروغ پذیر سیاحتی سرگرمیوں اور آبادی کی وجہ سے جو سڑکیں وغیرہ تعمیر کی جائیں وہ پہاڑی ندی نالوں اور سیلابی گزرگاہوں کیلئےرکاوٹ نہ بنیں اور مناسب مقامات پر چھوٹے پل، پکی برساتی نالیاں اور Culverts لازمی طور پر تعمیر کی جائیں جن سے اب تک ہم اغماض برت رہے ہیں۔ سڑکوں کے نیچے سے چھوٹی آبی گزرگاہوں اور کنکریٹ اسٹرکچر سے احتراز اگرچہ اسٹیک بولڈرزکیلئے منفعت بخش ہے، لیکن اس رویے کی وجہ سے بالائی علاقوں میں بارشی پانی سیلابی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر اپنے ساتھ بہنے والے بولڈرز کی مدد سے انسانی تعمیرات کو تباہ و برباد کرتا ہے۔نیز خالی رقبہ جات پر شجرکاری کو فروغ دیا جائے تاکہ مستقبل میں غیرمعمولی طغیانیوں کے بہائو کو قابو کیا جا سکے۔ ہم بے دھڑک بعض دریائوں کے متروک راستوں کو رہائشی اور تجارتی تعمیراتی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہاں ماحولیاتی اصلاح کے کسی بھی ایجنڈا آئٹم کی تکمیل نہیں کر سکے اور اسے پس پشت ڈال رہے ہیں۔