پاکستان اور ایران کے عوام جغرافیائی ہی نہیں صدیوں قدیم گہرے تاریخی، مذہبی، تہذیبی، ادبی، ثقافتی اورلسانی رشتوں میں منسلک برادر مسلم ملک ہیں ۔ برصغیر پر مسلم بادشاہوں کے دور میں فارسی سرکاری زبان رہی جس کی وجہ سے جہاں ہندوستان میں حافظ ، سعدی اور رومی جیسے الہامی شاعروں کا کلام ٍزبان زدعام رہا وہیں برصغیر کے نامور شاعر اپنے فارسی کلام کی وجہ سے ایران میں آج تک بہت مقبول ہیں۔ اقبال کا فارسی کلام خاص طور پر پاکستان اور ایران کے علمی و فکری اور دینی و ملی رشتوں کوقائم اور مستحکم رکھنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی سے ہر دور میں ایران و پاکستان میں نہایت قریبی روابط قائم رہے تاہم حالیہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ ، جس میں امریکہ نے اسرائیل کا کھلے بندوں ساتھ دیتے ہوئے ایران کے خلاف جنگ میں عملاً شرکت کی، پاکستان کی جانب سے ایران کی بھرپور سفارتی و اخلاقی حمایت کے سبب ایران میں قومی سطح پر پاکستان کیلئے غیر معمولی محبت و یگانگت کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنی ۔ اس تناظر میں ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی گزشتہ روز اپنی حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ پاکستان آمد خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ صدر پزشکیان کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ ہے جس میں وہ صدر پاکستان اور وزیر اعظم سے ملاقات اور اہم مذاکرات کریں گے ۔ ایرانی وفد اپنے اس دورے میںمرحوم ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے گزشتہ اپریل میں ہونے والے دورۂ پاکستان میں زیر غور آنے والے تجارتی معاہدوں، سرحدی مارکیٹوں اور دیگر امور پر پیش رفت کو آگے بڑھائے گا۔ پاکستان روانگی سے قبل ایرانی صدر نے اپنے دورۂ پاکستان کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم دونوں ممالک سالانہ تجارتی حجم کودس ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور سرحدی امور میں تعاون کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اس موقع پر امر کو اجاگر کیا کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت اور امریکی حملے کے دوران پاکستان نے ایران کی خودمختاری کے دفاع کیلئے ایران کی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ایران، پاکستان کے ساتھ زمینی، فضائی اور بحری راستوں کے ذریعے سرحدی تجارت کو فروغ دینا چاہتا ہے اور پاکستان کے ذریعے چین اور پاکستان کو ملانے والی شاہراہ ریشم سے یورپ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اور سرحدی مسائل دونوں ممالک کیلئے انتہائی اہم ہیں اور علاقائی سلامتی باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ دشمن مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی سازشیں کر رہا ہے لیکن ایران ان سازشوں کو ناکام بنائے گا۔دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر کے دورے کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ ایران کو چین کے راستے اپنی تجارت کو فروغ دینے میں اسلام آباد کا تعاون واضح کرتا ہے کہ پاکستان آج پوری طرح ایک آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہے۔ ایران سے زندگی کے اہم شعبوں میں روابط بڑھانے اور چین سے سدا بہار تعلقات قائم رکھنے کیساتھ ساتھ حالیہ دنوں میں پاکستان اور امریکہ کے روابط میں خاصی مدت سے جاری سردمہری کا بھی خاتمہ خود امریکہ کی خواہش پر ہوگیاہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے مقام میں اس واضح بہتری کا سبب بھارت سے حالیہ جنگ میں پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ ہے تاہم اس پوزیشن کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کو دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں میں بھی شامل کیا جائے اور پاک ایران اقتصادی روابط کا فروغ اس ہدف کے حصول میں یقینا معاون ہوگا۔