• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں فوجی حکمت عملی پراسرار اور خفیہ ہوتی ہے تاکہ دشمن کو اصل طاقت اورتکنیک کا علم نہ ہو سکے اور جنگ میں اسے حیران کرکے شکست دے دی جائے۔دوسری طرف جدید جمہوری ریاستیں شفاف رہ کراپنی طاقت اور مقبولیت کا جواز پیش کرتی ہیں ۔فوج اپنی حکمت عملی کا کبھی سرعام اعلان نہیں کرتی جبکہ حکومت اپنی حکمت عملی کا نہ صرف ببانگ ِ دُہل اعلان کرتی ہے بلکہ اپنے اقدامات کا ڈھنڈورا بھی پیٹتی ہے۔ اپوزیشن بڑبولی ہوتی ہے اور اکثر لغو الزامات لگا کر ریاست اور حکومت کو نشانہ بناتی ہے جسکا جواب شفافیت سے دیا جائے تو عام لوگوں کیلئے اسکا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔

تضادستان میں ہائبرڈ نظام ہےچنانچہ ریاست، فوج اور حکومت آپس میں گڈمڈ ہیں اسلئے شاید ان کے فرائض کی تقسیم میں بھی کنفیوژن ہے۔ عسکریت پر اسراریت کی متقاضی ہے مگر جب بھی کوئی قومی فریضہ آن پڑے تو پھر اسے خفیہ رکھنے کی بجائے شفاف بتانا اور لوگوں پر واضح کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ انہیں اطمینان ہو کہ ریاست میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ کچھ عرصے سے، جب سے بھارت سے جنگ جیتی گئی ہے اور امریکہ سے ہماری علانیہ دوستی کے چرچے ہوئے ہیں ہر معاملے میں پراسراریت بڑھتی جارہی ہے۔ دراصل اگر ریاست یا مقتدرہ، امریکی صدر سے ملے تو یہ سیاست ہے اور سیاست جتنی شفاف ہو اتنی ہی اچھی لگتی ہے اس کے اوپر پراسراریت کے جتنے بھی پردے چڑھائے جائیں یہ پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ سب لوگوں کو کامل یقین ہے کہ فیلڈ مارشل اور امریکی صدر کی ملاقات میں سوفیصد ملکی مفاد کی بات طے ہوئی ہوگی مگرلغو گو باتیں بنانے سے باز نہیں آتے کبھی معدنیات کے سودے کا تو کبھی مہنگے پیٹرول کی درآمد کا الزام لگاتے ہیں۔ اس عاجز کو علم ہے کہ ریاست کا اس حوالےسے گھڑا گھڑایا جواب ہوتاہے۔ Actions speak louder than words باتوں سے نہیں عمل سے پہچان ہوتی ہے مگر سیاست میں یہ مقولہ نہیں چلتا جب تک عمل کی باری آتی ہے الفاظ کا زہر اس قدر پھیل چکا ہوتا ہے کہ اس عمل میں بھی ناپسندیدگی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ریاست اور حکومت کی مکمل پراسراریت معنی خیز بھی ہے اور سوال طلب بھی۔ مڈل ایسٹ کے بحران میں ہمارا کردار یقیناً مثبت تھا ایران کے صدر کا دورہ اور ایرانی پارلیمان کے اظہارِ تشکر سے اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے کوئی کردار ادا کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کردار کیا تھا ؟ اسرائیل کو کس طرح روکا گیا؟ کیا بات چیت ہوئی؟ عالم اسلام کا مستقبل کیا ہے ؟ پاکستان کا اس صورتحال میں کیا کردار ہو گا؟ کیا ان سوالات پر پراسراریت کا گہرا پردہ ہی پڑا رہے گا یا اس ملک کے عوام کو شفافیت کے اصول کے تحت کچھ بتایابھی جائے گا۔

حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ سے ماخوذ قول ہے ’’شفافیت انصاف کی بنیاد ہے ‘‘سچائی اور شفافیت وہ ہتھیار ہیں جو ہر اندھیرے کو شکست دے دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں ہر چیز کو خفیہ رکھنا اور پراسراریت قائم رکھنے کو ریاست سے وفاداری سمجھ لیا گیا ہے، اگر سیاست ریاست کی پراسراریت نہ سمجھ سکے تو دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے ریاست کو سیاست کے ذریعے شفافیت قائم رکھ کر لوگوں کو آگاہی دینا لازم ہے۔ آج کل پاکستان یورپ اور امریکہ میں بہت متحرک ہے فیلڈ مارشل یا اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے امریکہ اور یورپ کے دورے زیرغور ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دورہ پاکستان پربھی پس پردہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ وزیر خزانہ اورنگ زیب نے امریکہ سے ٹیرف پر جو مذاکرات کئے ہیں کیا ان کی تفصیل اور اثرات سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری نہیں؟ امریکی پیٹرول درآمد کیوں کیا جارہا ہے کیا کویت اور عرب ممالک سے یہ سستا پڑ رہا ہے؟ معدنیات کتنی ہیں اورانکے بارے میں کیا سوچ ہے؟ عوام کو یہ سب بتانا ضروری ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حوالوں سے شفافیت کا دامن تھامے۔

امریکی اعلانات میں سے ایک نے تو سب پاکستانیوں کو حیران کر دیا ہے وہ اعلان ہے پاکستان میں پیٹرولیم کے ذخائر اور امریکی کمپنیوں کے ذریعے سے اس کی دریافت اور پھر سب سے بڑھ کر پاکستانی پیٹرول کی بھارت کو برآمد کرنےکی خواہش کا ۔اس اعلان نے تو ہر ایک کوورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب امریکہ سے صدر ٹرمپ کا بیان جاری ہو گیاتوتضادستان کے عامیوں کے سامنے بھی اس پر اسرار معاملے کی وضاحت کی جائے اور بتایا جائے کہ Shale گیس اور پیٹرول کے کتنے خزانے ہیں اور ان کو نکالنے کیلئے کون سا سستا ترین فارمولا اپنایا جائے گا؟ایک طرف تو ریاست کی پراسراریت کا رونا ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف کے نام نہاد حامیوں کی لغو گوئی ہے حکومت بولتی ہی نہیں اور یوٹیوبر بڑبولے ہیں، ریاست خاموش ہے تو اپوزیشن منہ پھٹ ہے ،حکومت مصلحت آمیز تو اپوزیشن بڑھک باز ہے۔ ایسے میں عوام جائیں تو کدھر جائیں پراسراریت سوال پیدا کرتی ہے مصلحت شکوک پیدا کرتی ہے اور بڑبولاپن ذہن کو چکرا دیتا ہے۔

اس عاجز اور پاکستان کی غالب اکثریت کو یقین ہے کہ پاکستان مڈل ایسٹ، چین اور کاروباری معاملات میں عوامی جذبات اور ریاستی مفادات کے عین مطابق اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر چند عاقبت نااندیش جو واویلا کر رہے ہیں ان کا منہ بند کرنا ضروری ہے ۔کیا یہ واضح کرنا مناسب نہ ہوگا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے اپنے تاریخی موقف پر قائم ہے؟ یہ بتانے میں کیا حرج ہے کہ ایران کی جنگ رکوانے میں پاکستان نے کیا مثبت کردار ادا کیا؟ کیا یہ معاملہ کھولنے میں کوئی مضائقہ ہے کہ کویت کے ساتھ کئی سال سے پاکستان کی سفارتی سردمہری کیسے اور کیوں ختم ہوئی؟ اس راز کو چھپانے کا کیا فائدہ ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ پیٹرول کی تلاش اور پیٹرول کی درآمد کیوں کر رہا ہے اور اس سے پاکستان کو کیا فوائد ملیں گے؟ پاکستان کی متحرک سفارتی سرگرمیوں میں سے یہ مثبت معاملہ بھی خفیہ رکھا جائے گا کہ ’’ابراہیم معاہدہ‘‘ کے حوالے سے مسلمان ممالک میں اس کے خلاف اتفاق رائے ہو رہا ہے؟ غرضیکہ وُہ معاملات جو خفیہ اور پراسرار رکھے جا رہے ہیں ان کو ظاہر کرنے سے شفافیت آئے گی مقتدرہ اور حکومت کی ساکھ بہتر ہوگی اور اسکے پاکستانی سیاست پر مثبت اثرات پڑیں گے۔

ہمارے مہربان دوست نجم سیٹھی صاحب کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے عمران خان سے ’’ہولا‘‘ ہتھ رکھنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ اقتدار کے ایوانوں سے خبر آ رہی ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ سے اسلام آباد کی نسبتاً سخت جیل میں منتقل کیا جارہا ہے ظاہر ہے کہ یہ آج کا سب سے بڑا سیاسی کنفیوژن ہے۔ ریاست اور حکومت کی اس معاملے میں پراسرار خاموشی نت نئے سوالات جنم دیتی رہتی ہے۔

خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی دو اہم و حساس ترین ایشو ہوتے ہیں انکے بارے میں پراسراریت کم سے کم اور شفافیت زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئے تاکہ ریاستی بیانیہ کسی کمزوری اور ابہام کا شکار نہ ہو ۔ یہ اتنا واضح ہو کہ ہر پاکستانی سینہ تان کر اس بیانیے کو اپنا سکے اور اس کی وضاحت بھی خود ہی کر سکے۔

تازہ ترین