دنیا کے ہر کونے میں بسنے والا پاکستانی، خواہ وہ مزدور ہو یا سائنس دان، کسی نہ کسی انداز میں اپنی شناخت چھوڑ رہا ہے۔ کچھ لوگ شہ سرخیوں میں آتے ہیں، کچھ بے صدا رہ کر بھی تاریخ رقم کر جاتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے ہی پاکستانی کی بات کریں گے جس نے نہ سیاست کی نہ سرمایہ کاری، نہ سوشل میڈیا پر ویڈیو زبنائیں، بلکہ محض خلوص، محنت اور ایمان داری سے اخبار بیچتے بیچتے فرانس کے دل میں اپنی جگہ بنا لی۔ نام ہے ان کا علی اکبر — ایک پاکستانی اخبار فروش جسے حال ہی میں فرانس کی حکومت نے اپنا اعلیٰ ترین شہری اعزاز "لیجن آف آنر" عطا کیا ہے۔یہ کہانی خوابوں کے تعاقب کی ہے، یہ داستان پسینے، صبر اور سادگی سے تاریخ بنانے والوں کی ہے۔علی اکبر کا تعلق پاکستان کے شہر راولپنڈی سے ہے۔ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے علی اکبر کا بچپن بھی عام پاکستانی بچوں کی طرح محرومیوں اور سادہ خواہشوں میں گزرا۔ تعلیم کا سلسلہ کسی مقام تک نہ جا سکا، کیونکہ زندگی نے جلدہی انہیں یہ سمجھا دیا کہ پیٹ کی بھوک کتابوں کی زبان نہیں سمجھتی۔ محض اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اپنے خوابوں کا سامان اٹھا کر گھر سے نکلے اور دنیا دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ان کے ذہن میں کوئی واضح خاکہ نہیں تھا، صرف اتنا معلوم تھا کہ پاکستان میں انکے جیسے ہزاروں نوجوان بیروزگاری کی بھٹی میں جھلس رہے ہیں، اور شاید کہیں دور، کسی اور ملک میں قسمت مسکرا رہی ہو۔ علی اکبر نے ہجرت کے اس سفر کا آغاز کیا۔ ہر سرحد ایک نئی آزمائش تھی، ہر دن ایک نئی بھوک۔ اس وقت نہ موبائل فون تھا، نہ انٹرنیٹ، نہ ہی کوئی سفارتی سہارا۔ یہ وہ دور تھا جب انسان صرف اپنے قدموں اور یقین پر بھروسہ کرتا تھا۔ کئی راتیں فٹ پاتھوں پر گزریں، کئی دن بھوکے رہ کر مزدوری کی۔ بالآخر وہ 1972کی دہائی میں فرانس پہنچ گئے — پیرس، جسے دنیا محبت، آرٹ اور روشنیوں کا شہر کہتی ہے۔ لیکن ایک غیر ملکی، بغیر دستاویزات، بغیر رشتہ دار یا دوست کے، پیرس بھی ایک پتھر دل شہر لگتا تھا۔ علی اکبر نے کئی سال غیرقانونی طور پر چھوٹی موٹی مزدوریاں کیں۔ وہ اکثر پیرس کے پلوں کے نیچے سوتے، کپڑے دھونے کیلئے فواروں کا پانی استعمال کرتے، اور روٹی کیلئے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے۔کئی سال کی جدوجہد کے بعد علی اکبر نے ایک دن پیرس کی ایک معروف سڑک پراخبار بیچنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں لوگ ان کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔ اپنی مخصوص آواز Ca y! estay ( یعنی ”لو! آ گیا“) کے ساتھ وہ ہر روز صبح چھ بجے پیرس کے چوکوں پر کھڑے ہوتے اور اخبار فروخت کرتے۔ وقت کے ساتھ ان کی آواز پیرس کے لوگوں کیلئے ایک پہچان بن گئی۔لوگ انہیں پہچاننے لگے، ان کی سادگی، اخلاق، مستقل مزاجی اور مسکراہٹ نے دل جیت لئے۔ وہ نہ صرف اخبار بیچتے، بلکہ شہر کے باشندوں سے گرم جوشی سے حال احوال بھی پوچھتے۔ یوں وہ پیرس کے’’آخری اخبار فروش‘‘ کہلانے لگے۔ فرانس کی حکومت نے علی اکبر کی دہائیوں پر محیط خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں 2025 میں’’لیجن آف آنر‘‘سے نوازنے کا اعلان کیا۔ یہ اعزاز فرانس کا سب سے بڑا شہری تمغہ ہے، جو صرف ان افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ملک کیلئےشاندار خدمات انجام دی ہوں۔ عموماً یہ ایوارڈ سائنس دانوں، ادیبوں، فلسفیوں یا اعلیٰ فوجی افسروں کو دیا جاتا ہے۔ مگر اس بار ایک سادہ، غیر ملکی (پاکستانی) اخبار فروش کے حصے میں آیا — کیونکہ علی اکبر نے وہ کچھ کیا جو بڑے بڑے لوگ نہیں کر پاتے: انسانوں کے دل جیتے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انہیں یہ اعزاز الیزے پیلس میں ایک خصوصی تقریب میں پیش کریں گے۔ پیرس کی شہری حکومت نے بھی ان کی خدمات پر شکریہ ادا کیا اور انہیں پیرس کی ’’ثقافتی پہچان‘‘قرار دیا۔علی اکبر کا فلسفہ زندگی، سادگی اور خلوص یہ ہے کہ ”میں نے کبھی دولت نہیں چاہی، مجھے بس عزت چاہیے تھی۔ پیرس کے لوگ مجھے میرے اخلاق اور محنت کی بنیاد پر جانتے ہیں۔ یہی کافی ہے۔“ وہ سادہ سے کپڑے پہنتے ہیں، موبائل فون استعمال نہیں کرتے، اور اب بھی روزانہ صبح چھ بجے اپنی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان کو اپنا کام ایمان داری سے کرتے رہنا چاہیے، چاہے وہ اخبار بیچنا ہی کیوں نہ ہو۔ دنیا ایک دن ضرور پہچانتی ہے۔ انہوں نے کبھی چھٹیاں نہیں لیں، کبھی وقت پر کام چھوڑا نہیں۔ وہ آج بھی ریٹائرمنٹ کانہیں سوچتے ، کیونکہ ان کیلئے اخبار فروشی صرف پیشہ نہیں، شناخت ہے۔علی اکبر کی کہانی ہمارے نوجوانوںکیلئے مشعلِ راہ ہے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے دل بار بار یہ سوچتا ہے کہ اگر ایک پاکستانی نوجوان، بغیر وسائل، بغیر سہارا، ایک غیر ملکی معاشرے میں اتنی عزت کما سکتا ہے، تو ہم یہاں اپنے ملک میں کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے افراد کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جو دیا جانا چاہیے۔ ہمیں میڈیا، ریاست اور تعلیمی اداروں میں ایسے کرداروں کو اجاگر کرنا ہوگا، جو محنت، خلوص، اور سچائی سے جڑے ہوں۔ ہیرو وہی ہوتے ہیں جو مشکل حالات میں بھی اپنا راستہ خود بناتے ہیں — علی اکبر ایسے ہی ایک خاموش ہیرو ہیں۔علی اکبر کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عظمت نہ تو طاقت میں ہے، نہ دولت میں، بلکہ سادگی، ایمان داری، اور محنت میں ہے۔ ان کی کہانی محض ایک فرد کی نہیں، یہ ہر ا س محنت کش کی کہانی ہے جو دنیا میں کہیں بھی اپنی شناخت بنا رہا ہے۔فرانس نے علی اکبر کو عزت دی، پہچانا، اور سراہا۔ اب یہ ہماری باری ہے — ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے علی اکبر جیسے محنت کشوں کو صرف ہمدردی کی نظر سے نہیں، بلکہ فخر کی نظر سے دیکھیں۔