• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک امریکہ تعلقات کے مابین اتار چڑھاؤ کی ایک طویل تاریخ ہے۔پاکستان نے آئزن ہاور کے زمانے میں امریکی سرد مہری کا سامنا کیا۔پھر کینیڈی اور جانسن کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں گرم جوشی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ افغان جنگ کے دوران تعلقات میں اعتماد کا یہ عالم تھا کہ پاکستانی صدر ضیاء الحق نے امریکی صدر کارٹر کی امداد کو مونگ پھلی کے دانوں سے تشبیہ دے کر ٹھکرا دیا اور پھر کچھ عرصے بعد اس میں مناسب ترمیم کے ساتھ قبول بھی کر لیا۔

امریکی صدر بل کلنٹن کے زمانے میں صدر کلنٹن اور نواز شریف کے مابین ذاتی تعلقات مثالی تھے۔ تاہم جوہری دھماکوں کی پاداش میں پاکستان نے بدترین پابندیوں کا سامنا کیا۔

صدر بش کے دور صدارت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی لیکن اس کے بدلے ادا کی گئی قیمت ایک خوفناک خواب کی مانند ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کبھی پاکستان سے خوش نہ ہوا،’’ڈو مور‘‘کا تقاضا ہوتا رہا حالانکہ پاکستان نے ہزاروں افراد اس جنگ میں قربان کیے، انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں پاکستانی معیشت پر ایک ناروا بوجھ پڑا۔

موجودہ صدر ٹرمپ یقینی طور پر ایک ایسے شخص ہیں جن کی طبیعت کے بارے میں کوئی بھی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے۔ دوسری دفعہ صدر منتخب ہونے سے پہلے پاکستان اور بھارت میں مختلف توقعات وابستہ کی جا چکی تھیں۔ پاکستان میں تحریک انصاف کے دوستوں کا خیال تھا کہ جونہی صدر ٹرمپ دوسری بار صدارت کا حلف اٹھائیں گے اسی وقت تحریک انصاف کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی، بھارت میں یہ تصور تھا کہ مودی اور ٹرمپ تو یک جان دو قالب ہیں بھارت کے لیے تجارت کے مزید راستے کھل جائیں گے لیکن نہ تو تحریک انصاف کے لیے راستے آسان ہوئے اور نہ ہی بھارت کے لیے کاروباری مواقع پیدا ہوئے۔

حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران ابتدائی طور پر امریکی رویہ روایتی اور سرد تھا صدر ٹرمپ نے کہہ دیاکہ یہ ان دونوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ لیکن پھر پاک فوج اور پاک فضائیہ کے بے مثال اور تاریخی رد عمل نے جہاں پوری دنیا کو چونکا دیا وہاں امریکہ بھی پاکستان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوا اور صدر ٹرمپ کی درخواست پر پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی تو کر دی لیکن صدر ٹرمپ اپنی افتاد طبع کے مطابق ہر دس دن بعد بھارت کو یہ یاد دلاتے رہے کہ ان کی مہربانی سے جنگ بند ہوئی ہے بھارتی طیاروں کی تباہی کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہہ دیا کہ بھارت کے طیارے گر رہے تھے تو میں نے بھارت کو پاکستان سے بچایا۔بھارت ابھی تک ٹرمپ کی لفظی گولہ باری کے اثرات سے نہیں نکلا تھا کہ امریکہ نے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، ان کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی جو ایران کے ساتھ تجارت کر رہی تھیں اور لگے ہاتھ پاکستان پر بھی 19 فیصد ٹیرف لگا دیا جو پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں۔امریکی صدر ٹرمپ کی حیران اور پریشان کر دینے والی روش تو پرانی ہے لیکن ان دنوں وہ پاکستان سمیت پوری دنیا کو حیران کرتے جا رہے ہیں۔ فی الحال تو صدر ٹرمپ کا یہ بیان پوری دنیا میں زیر بحث ہے جس میں انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تیل کے وسیع ذخائر نکالنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے لیے ہم آئل کمپنی کا انتخاب کر رہے ہیں اور طنزاً یہ بھی کہہ دیا کہ کون جانتا ہے کہ شاید پاکستان انڈیا کو تیل فروخت کرے۔یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی پیداوار گزشتہ چند سالوں میں مسلسل کم ہو رہی ہے۔ وزارت پٹرولیم کے اعداد و شمارکے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں تیل کی مقامی پیداوار 11 فیصد تک گری ہے۔یہ تیل کے ذخائر پاکستان کے کون سے علاقوں میں ہیں اس سے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،ان تجارتی معاہدات کے ملکی سیاست اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ سب سوالات ابھی پردہ اخفا میں ہیں۔ان سب افواہوں کے باوجود پوری قوم یہ سمجھتی اور جانتی ہے کہ ریاست پاکستانی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرےگی۔دوسری طرف بھی ایک حقیقت ہے کہ چین پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے اور پاکستان کے معاشی حجم میں چین کا بنیادی کردار ہے۔ فطری طور پر اس بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کہ کیا سی پیک جو ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اس کی رفتار پر کوئی فرق پڑے گا، کیا امریکی سرمایہ کار چینی سرمایہ کاروں کی جگہ لیں گے،تاہم حکومتی ذرائع بصد اصرار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اس اعلان سے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور منصوبوں پر کوئی براہ راست اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق چین کے پاکستان کے ساتھ الگ معاشی تعاون کے منصوبے ہیںجبکہ امریکہ کے ساتھ الگ۔

ایران کے صدر کا دورہ پاکستان بھی ٹائمنگ کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ ابھی تک زیر التوا ہے اور امریکی پابندیوں کے خدشے کے باعث اس منصوبے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا جا رہا۔اس وقت صورتحال مکمل طور پر ابہام کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جو منصوبہ امریکہ کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے اس حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں لے اور پاک چین منصوبوں کے حوالے سے قوم میں جو تشویش کی لہر پیدا ہو رہی ہے اس کے تدارک کے لئے بھی مناسب اقدامات کرے۔

تازہ ترین