پاکستان اپنے معرض وجود میں آنے کے وقت سےلیکر آج تک امریکہ کے ساتھ تعلقات میں مختلف اتار چڑھاؤ دیکھتا آ رہا ہے اور اگر پاکستان اپنے ماضی سے حال پر تنقیدی نگاہ ڈالے تو آنے والے وقت کیلئے بہت بہتر حکمت عملی اختیار کر سکتا ہے ۔ رواں ماہ اگست سے لیکر ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی شرکت تک بہت سارے ایسے امور حکومت کے سامنے ہونگے کہ جنکو مد نظر رکھتے ہوئے ہی امریکہ اور دنیا ہم سے معاملات کو حتمی شکل دےگی۔امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرتے ہوئے ماضی کے لمحہ لمحہ کو سامنے رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نہج پر برقرار نہیں رہ سکے تھے ۔ اس بات کے سو دلائل موجود ہیں کہ امریکہ برطانوی تسلط کے خاتمے کے وقت نئی ریاست پاکستان کے قیام کے حق میں نہیں تھا مثال کے طور پر 14 اپریل 1947کو انڈر سیکرٹری ڈین ایچیسن نے لندن میں امریکی سفارتخانے کو ایک خط ارسال کیا جو امریکی آرکائیوز میں موجود ہے، اس خط میں انہوں نے تحریر کیا کہ’’گزشتہ برس میں ہم نے متحدہ ہندوستان کی اساس پر مقامی لوگوں کو اقتدار کی پر امن منتقلی کیلئے برطانوی حکومت کی کاوشوں کی بھر پور تائید کی ہے ۔ اس تائید کا اظہار اعلیٰ امریکی حکام کی طرف سے پریس کو جاری ہونے والے بہت سے بیانات کے علاوہ ہمارے سفارتی نمائندوں اور ممتاز ہندوستانی رہنماؤں کے درمیان غیر رسمی ملاقاتوں کی صورت میں ہوتا رہتا ہے ۔ اس طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے ہم ہندوستان کی وحدت کو برقرار رکھنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے پوری طرح آگاہ رہے ہیں ۔ ہم اس تصور کی طرف ميلان رکھتے ہیں کہ ہندوستان کی یکجہتی برقرار رہنے سے دنیا کے اس حصے میں ہمارے سیاسی اور معاشی مفادات کو بہترین فائدہ پہنچے گا‘‘تاہم جب برطانوی ہند کی تقسیم ناگزیر ہو گئی تو امریکہ نے بھی خطے کی صورتحال کو نئے حالات کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا ۔ امریکی وزیر خارجہ جنرل مارشل نے پاکستان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو خط امریکی صدر ٹرومین کو قیام پاکستان سے قبل تحریر کیا تھا اس کی عبارت بہت قابل غور ہے کہ’’15 اگست 1947 کو شمال مغربی ہندوستان کے بڑے حصے اور شمال مشرقی ہندوستان کے ایک چھوٹے حصے پر حاکمانہ اختیار رکھنے والی ایک نئی حکومت جو ڈومینین آف پاکستان کے نام سے موسوم ہے معرض وجود میں آجائیگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے قومی مفاد کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کی اس نئی ڈومینين کو سفیروں کے تبادلے کی متوقع درخواست کا مثبت جواب دیتے ہوئے جلد از جلد تسلیم کر لیا جائے۔ سات کروڑ کی آبادی کا حامل پاکستان دنیا میں سب سے بڑا مسلم ملک ہوگا اور دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی اہمیت کے علاقوں میں سے ایک پر مشتمل ہوگا ‘‘ اس سب کے باوجود یہ واضح رہنا چاہئے کہ اس وقت بھی امریکی پالیسی میں انڈیا کو کلیدی حیثیت حاصل تھی اور امریکہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستوں اور راستوں کو انڈیا کی حمایت سے محفوظ بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھا ۔ انڈیا میں فوری طور پر نئی دہلی میں موجود ایک اعلیٰ سفارت کار ہنری گریڈی کو سفیر کا درجہ دے دیا گیا تھا مگر پاکستان میں کراچی میں موجود قونصل جنرل کو نگران مقرر کیا گیا تھا ۔ پاکستان میں پہلے امریکی سفیر پال ایچ ایلنگ نے فروری 1948ءمیں اسناد سفارت پیش کی تھیں جو کہ پانچ ماہ بعد خرابی صحت کا کہہ کر واپس چلے گئے تھے اور پھر فروری 1950 میں ايورا ایم وارن کی تقرری تک پاکستان میں کوئی امریکی سفیر تعینات نہیں تھا ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آج کل بھی پاکستان میں امریکی سفیر موجود نہیں ہے ۔
اس تمام گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی اہمیت امریکی نظر میں مسلمہ ہے ، مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس مسلمہ حیثیت کے ذریعے پاکستان کیلئے مفادات کا حصول کیسےممکن بنایا جا سکتاہے ۔ پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت اس میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ابھی ایران کے صدر پاکستان تشریف لائے ، پاکستان نے حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں حق دوستی ادا کر دیا اور اب ایران کی باری ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے انداز کو بہتر کرے کیونکہ بد قسمتی سے ایران پاکستان سے توقعات تو بہت رکھتا ہے مگرپاکستان کی اس خواہش ، کہ اس کی بین الاقوامی سرحدوں کا احترام کیا جائے، کو کچھ عرصہ قبل کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔ میرا مقصد گڑے مردے اکھاڑنا نہیں مگر امور کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ، اب ایران اور افغان طالبان بھی سی پیک میں شمولیت چاہتے ہیں ، افغان طالبان سے بھی کسی معاشی منصوبے میں شرکت سے قبل یہ ضمانت لینی چاہئے کہ افغانستان پاکستان کیلئے مسائل پیدا نہیں کر یگا۔ ان دونوں ممالک کے حوالے سے امریکہ اور اس کے اتحادی ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں ، امید کی جا رہی ہے کہ جب وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کیلئے امریکا جائیں گے تو ان کی سائیڈ لائن ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ سے بھی ملاقات ہوگی اور اس ملاقات سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ بیجنگ بھی متوقع ہے ۔ اب اہمیت اس بات کی ہے کہ پاکستان کس طرح سے چین اور امریکہ کو ایک ساتھ خارجہ پالیسی میں شامل رکھتا ہے کیوں کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل پاکستان میں منرلز ، معدنیات بلکہ اب تو تیل کے امور بھی مکمل طور پر طے ہونے چاہئیں تا کہ جب صدر ٹرمپ سے بات کی جائے تو اس وقت پاکستان کیلئے تصویربالکل واضح ہو اسی طرح سے ایران ، افغانستان کے حوالے سے بھی ہر سوال کے جواب کی تیاری ہونی چاہئے اور اگر انڈیا نے سندھ طاس معاہدے پر اپنی موجودہ روش کو برقرار رکھا تو پانی کا مسئلہ بہت گھمبیر ہو چکا ہوگا اور ممکن ہےاس پر بھی صدر ٹرمپ کی مداخلت کی ضرورت ہولہٰذا ان تمام امور پربھی تیاری مکمل ہو نی چاہئے ۔