یہ نومبر2007کے آخری دن تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے کراچی میں نواب خیر بخش مری کے ساتھ ملاقات کی اور ان کے بیٹے بالاچ مری کی موت پر تعزیت کی۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے ملک میں آئین کی معطلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر گفتگو شروع کی تو نواب خیر بخش مری نے انہیں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ آپ ملک کو چھوڑئیے اور اپنی جان کی فکر کیجئے ،آپ ایک قاتلانہ حملے میں بچ چکی ہیں لیکن آپ پر پھر حملہ ہوسکتا ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو نے دوبارہ ایک سیاسی و جمہوری جدوجہد کے لئے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کی بات شروع کی تو مری صاحب نے بات کاٹ دی اور کہا کہ آپ کے والد کو ماردیا گیا۔ آپ کو بھی ماردیں گے، آپ صرف اپنی جان بچائیے۔اس ملاقات سے واپسی پر محترمہ بینظیر بھٹو بہت مایوس تھیں۔چند دن بعد انہوں نے مجھے نواب خیر بخش مری کے ساتھ ملاقات کے بارے میں بتایا اور کہا کہ وہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے وفاق کے لئے بہت سے خطرات دیکھ رہی ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد نواب خیر بخش مری کا خدشہ درست ثابت ہوا اور محترمہ بینظیربھٹو کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے تقریباً ساڑھے چھ سال کے بعد نواب خیر بخش مری 10 جون 2014 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کے بعد پاکستان کے کسی سیاستدان میں یہ جرأت نہ پیدا ہوئی کہ وہ نواب خیر بخش مری کے پاس جاتا اور پاکستان کے ساتھ ان کی ناراضگی دور کرکے انہیں قومی دھارے میں واپس لانے کی کوشش کرتا۔
نواب خیر بخش مری پاکستان سے کیوں ناراض تھے اور ان کی ناراضگی دور کرنا کیوں ضروری تھا؟ اس سوال کی اہمیت مری صاحب کے انتقال کے بعد قائم رہے گی۔ سب جانتے ہیں کہ زندگی کے آخری برسوں میں وہ پاکستان کے وفاق پر یقین نہیں رکھتے تھے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے لڑنے والوں کی حمایت کیا کرتے تھے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نواب خیر بخش مری شروع سے علیحدگی پسند نہیں تھے۔ ان کا تعلق بلوچوں کے ایک ایسے قبیلے سے تھا جس کے بارے میں برطانوی فوج کے ایک افسر چارلس نیپئر نے 1846 میں یہ اعلان کیا تھا کہ جو کوئی بھی کسی مری کا سرکاٹ کر لائے گا اسے دس روپے فی سر کے حساب سے انعام دیا جائے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے متحدہ ہندوستان میں جبری فوجی بھرتی کا آغاز کیا تو مری قبیلے نے برطانوی فوج میں بھرتی سے انکار کردیا اور ترکی کی خلافت عثمانیہ کی خفیہ حمایت سے برطانوی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ اس مزاحمت میں مری قبیلے کے سردار خیر بخش مری نے اہم کردار ادا کیا بعد ازاں یہی خیر بخش مری تھے جنہوں نے سبی میں دیگر بلوچ سرداروں کے ساتھ مل کر انگریز حاکم کی بگھی کھینچنے سے انکار کیا۔ اسی خیر بخش مری کے خاندان میں ایک اور سپوت کا نام خیر بخش مری رکھا گیا۔ اس خیر بخش مری کا بچپن لاہور کے ایچی سن کالج میں گزرا۔ 1947 میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو نوجوان خیر بخش مری کو ا پنے بلوچ تشخص کا احساس تو تھا لیکن اس نے کبھی پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) قائم ہوئی تو خیر بخش مری نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے بلوچوں کے حقوق حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے صرف خیر بخش مری نہیںبلکہ بہت سے بلوچوں کے اندر زلزلہ برپا کردیا۔1958 میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا تو بہت سے بلوچ سیاستدانوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایک بزرگ بلوچ سردار نواب نوروز خان نے ریاست کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے اور انہیں قرآن کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے نیچے آنے پر راضی کیا گیا۔ نواب نو روز خان پہاڑوں سے نیچے آئے اور انہوں نے ہتھیار پھینک دئیے لیکن انہیں گرفتار کرکے ان کے بیٹوں کو پھانسی دی گئی اور یہ بوڑھا شخص بھی جیل میں انتقال کرگیا۔ مذاکرات کے نام پر اس دھوکے نے ایک نئی مزاحمت کو جنم دیا۔ نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی سمیت کئی بلوچ سیاستدانوں کو غداروں کا ساتھی قرار دے کر گرفتار کیا گیا۔ جنرل ایوب خا ن نے پاکستان کے تین دریائوں کا پانی بھارت کو بیچ دیا لیکن ان بلوچوں کو پاکستان کا وفادار تسلیم کرنے سے انکاری رہا۔آخر کار 1970 کے انتخابات کا مرحلہ آیا۔ نواب خیر بخش مری نے نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ نیپ کو بلوچستان اور سرحد(خیبر پختونخوا) میں جے یو آئی کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا، پیپلز پارٹی کو پنجاب اور سندھ میں اکثریت ملی جبکہ عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں اکثریت ملی۔ قومی اسمبلی میں عوامی لیگ کے پاس واضح اکثریت تھی۔ نیپ نے حکومت سازی کے لئے عوامی لیگ کی حمایت کردی لیکن جنرل یحییٰ خان اقتدار کی منتقلی سے گریز کرتا رہا۔ مشرقی پاکستان میں حالات بگڑ گئے۔ آپریشن شروع ہوگیا، خیر بخش مری اس آپریشن کے خلاف تھے۔ اس آپریشن نے بھارت کو مداخلت کا موقع فراہم کیا۔ پاک بھارت جنگ شروع ہوئی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔1972 میں خیر بخش مری نے اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔ آئین سازی کے عمل میں حصہ لیا۔ انہیں 1973 کے آئین پر کچھ تحفظات تھے، وہ صوبوں کے لئے کچھ ا یسے حقوق مانگ رہے تھے جو 1973 کے آئین میں نہیں دئیے گئے لیکن کئی سال بعد 18ویں ترمیم کے ذریعہ 2010 میں دیدئیے گئے۔ نیپ نے 1973 کا آئین تسلیم کرلیا لیکن خیر بخش مری نے پارٹی کے فیصلے سے اختلاف کیا تاہم وہ پارٹی میں بھی شامل رہے اور اسمبلی کی رکنیت بھی برقرار رکھی۔
1973 کے آئین کی منظوری کے کچھ عرصہ کے بعد بلوچستان میں نیپ کے وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کو برطرف کردیا گیا اور نیپ کی قیادت پر غداری کا الزام لگادیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ا پنی کتاب’’افواہ اور حقیقت‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ نیپ کی قیادت کے خلاف ریاستی ادارے کے دبائو پر مقدمہ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس واقعہ کے بعد نواب خیر بخش مری پاکستان میں جمہوری جدوجہد کے ذریعہ حقوق حاصل کرنے کے بارے میں مایوس ہوگئے۔ وہ ایک دفعہ پھر جیل گئے۔ کچھ عرصے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے نیپ کی قیادت کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا لیکن نواب خیر بخش مری پاکستان چھوڑ کر افغانستان چلے گئے اور وہاں روس نواز کمیونسٹ حکومت کے مہمان بن گئے۔ 1989 میں کابل میں روس نواز حکومت ختم ہوئی تو نواب خیر بخش مری کو واپس پاکستان آنا پڑا۔ انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں پھر گرفتار کیا گیا لیکن پھر رہا کردیا گیا۔ مری صاحب بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے کردار سے مطمئن نہ تھے۔ ان کا موقف تھا کہ بی این پی یا نیشنل پارٹی صرف بلوچستان کی بات کرتی ہیں۔ افغانستان اور ایران میں بکھرے ہوئے بلوچوں کی بات نہیں کرتیں۔ ان کا ایک بیٹا حربیار مری آزاد بلوچستان کا حامی ہے دوسرا بیٹا چنگیز مری مسلم لیگ(ن) کا ایم پی اے ہے اگر ان کا ایک بیٹا آج بھی وفاق کی سیاست پر یقین رکھتا ہے تو پھر نواب خیر بخش مری کے ساتھ بھی ڈائیلاگ کی گنجائش موجود تھی۔ ظاہر ہے کہ مری صاحب اس ڈائیلاگ پر اسی وقت تیار ہوتے جب پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے اپنے قول و فعل کا تضاد دور کرتے۔ نواب خیر بخش مری ریاست سے اس لئے ناراض ہوئے کہ ریاست کے اداروں نے جو کہا اس پر عمل نہیں کیا، جمہوری طرز سیاست کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا گیا، جس نے ذرا سا بھی اختلاف یا احتجاج کیا اسے غدار بنادیا گیا۔ نواب خیر بخش مری پر غداری کے الزامات جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوئے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے ان الزامات کو اہمیت دینی بند کردی کیونکہ وہ جیل جانے یا مارے جانے کے خوف سے آزاد ہوگئے۔
زندگی کے آخری دنوں میں جب بھی کسی نے جھجکتے جھجکتے ان سے پوچھا کہ کیا ڈائیلاگ کے ذریعے پاکستان کے قومی دھارے میں واپسی کا کوئی امکان موجود ہے تو مری صاحب مسکراتے ہوئے کہتے کہ جو ریاست اپنے آئین کا تحفظ نہیں کرسکتی اس ریاست کے ساتھ ڈائیلاگ کے ذریعہ مجھے تحفظ کیسے مل سکتا ہے؟ نواب خیر بخش مری کے اس سوال کا جواب اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان کی تمام سیاسی و جمہوری قوتیں مل کر 1973 کے آئین کی بالا دستی کو ممکن بنائیں۔ جب آئین تمام ریاستی اداروں پر حاوی ہوجائے گا اور آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا ملے گی تب ہی پاکستانی ریاست سے پاکستانیوں کی ناراضی بھی ختم ہوگی۔