• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنسدانوں نے دائمی تھکاوٹ کو جینیاتی مسئلہ قرار دیدیا

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

اگر آپ ہر وقت معمولی سرگرمی کے بعد بھی تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ آپ سست ہیں۔ 

دائمی تھکاوٹ کا تعلق سستی سے یا پھر یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے، اسے برطانوی محققین نے دریافت کرلیا ہے۔

ایڈنبرا یونیورسٹی کے محققین نے گزشتہ روز شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں بتایا کہ دائمی تھکاوٹ کے سنڈروم کا تعلق ڈی این اے میں فرق سے ہے۔

انہوں نے مذکورہ تحقیق یہ دریافت کرنے کے لیے کی تھی کہ گویا دائمی تھکاوٹ کے سنڈروم کا تعلق نفسیات سے ہے یا پھر یہ سستی کی وجہ سے ہے؟

اس مطالعے میں دائمی تھکاوٹ کے سنڈروم کے حامل افراد اور صحت مند افراد کے ڈی این اے کا جائزہ لیا گیا۔

حالیہ تحقیقی مطالعہ میں دائمی تھکاوٹ کی شکایت کے ساڑھے 15 ہزار سے زائد افراد جبکہ 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد صحت مند افراد کے ڈی این اے نمونوں کی جانج کی گئی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ دائمی تھکاوٹ کے سنڈروم کا شکار افراد کے جینیاتی کوڈ صحت مند افراد کے جینیاتی کوڈ سے آٹھ شعبوں میں مختلف ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحقیق پہلا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے کہ جینز کسی شخص کے مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دائمی تھکاوٹ کے سنڈروم کے اہم علامات میں معمولی جسمانی یا ذہنی سرگرمی کے بعد دماغ کا سن ہوجانا، تھکاوٹ یا درد محسوس کرنا شامل ہے۔

محققین کے مطابق دائمی تھکاوٹ کے سنڈروم کی وجوہات کے بارے میں لوگوں کو بہت کم معلومات ہے اور اس کی تشخیص یا علاج نہیں ہے۔ تاہم اس حالت سے دنیا بھر میں تقریباً 67 ملین افراد متاثر ہیں۔


نوٹ: یہ ایک معلوماتی مضمون ہے، اپنی کسی بھی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

صحت سے مزید