• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مَیں ضلع حصار کی تحصیل سرسہ کے اُن چند خوش نصیب نوجوانوں میں شامل تھا جنہوں نے 14؍اگست 1947ء کو نصف شب ریڈیو پاکستان لاہور سے قیامِ پاکستان کا اعلان سنا تھا اور ہم بےاختیار سجدۂ شکر بجا لائے تھے۔ یہ ہمارے عزیز دوست محمد یقین کا گھر تھا جہاں ریڈیو کی سہولت میسّر تھی۔ ہم نوجوان جنہیں قیامِ پاکستان میں پسماندہ مسلمانوں کا مستقبل درخشاں اور اِسلام کا زبردست احیا نظر آ رہا تھا، قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ کی اِس عظیم نعمت پر بہت شاداں تھے اور برِصغیر پر ایک نیا عہد طلوع ہوتا دیکھ رہے تھے۔ گزشتہ چند مہینوں سے برِصغیر میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رَہی تھیں۔ قائدِاعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کیلئے آزاد وَطن کی سیاسی اور آئینی جدوجہد جس بصیرت اور اِستقامت سے کی تھی، اُس نے انگریز حکمرانوں کو شدید احساس دلا دیا تھا کہ اب اُن کیلئے ہندوستان پر حکومت کرنا محال ہو گیا ہے۔

وزیرِاعظم وِنسٹن چرچل زمینی حالات میں غیرمعمولی تبدیلی آ جانے کے بعد بھی ہندوستان کو آزاد کرنا نہیں چاہتے تھے، مگر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے حکومتِ برطانیہ کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ انڈین نیوی میں جس کا مرکز کراچی میں تھا، اُس میں ۱۹۴۵ء کے لگ بھگ بغاوت ہوئی۔اُس بغاوت میں پاکستان کے عظیم افسانہ نگار ذکاء الرحمٰن کےوالدِ بزرگوار اَور میرے بہنوئی جناب مظہر الرحمٰن بھی شامل تھے۔ اِسکے بعد انگلستان میں انتخابات ہوئے اور دُوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ کو فتح سے ہمکنار کرنے والے وزیرِاعظم شکست کھا گئے اور لیبر پارٹی کے سربراہ مسٹر کلیمنٹ اٹیلی برسرِاقتدار آئے۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ ہندوستان کو جون 1947ء تک آزاد کر دیا جائے گا، لیکن ہندوستان کے حالات بڑی تیزی سے قابو سے باہر ہوتے گئے اور اَنگریزوں کو جون 1947ء میں یعنی ایک سال پہلے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کا اعلان کرنا پڑا جس کا میری زندگی سے ایک تعلق پیدا ہو گیا تھا۔

ہوا یہ کہ 3 جون 1947ء کی صبح گورنمنٹ ہائی اسکول سرسہ میں میٹرک کا نتیجہ سنایا گیا۔ مَیں بفضلِ خدا اَپنے اسکول میں فرسٹ آیا تھا جو بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اُسی شام آل انڈیا ریڈیو سے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے منصوبے کا اعلان کیا جسکے مطابق 15؍اگست 1947ء کو ہندوستان تقسیم کر دیا جائے گا اور دَو مملکتیں قائم کر دی جائیں گی۔ پنڈت جواہر لال نہرو، قائدِاعظم محمد علی جناح اور سردار بلدیو سنگھ نے اِس اعلان سے اتفاق کیا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی کمیٹی امپریل ہوٹل دہلی میں 3جون کے منصوبے کی منظوری دینے پر غور و خوض کر رہی تھی کہ حسین شہید سہروردی ہال میں نمودار ہوئے اور قائدِاعظم کے پہلو میں جا بیٹھے۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے آزاد بنگال کے حق میں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ قائدِاعظم نے سہروردی کی طرف ناگواری سے دیکھتے ہوئے کہا آگے بڑھو، مگر میرا خیال ہے کہ کانگریس آپ سے اتفاق نہیں کرے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ۳ جون کے اعلان کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ نے جولائی میں ’قانونِ آزادیِ ہند‘ منظور کیا جس میں طے پایا کہ ۱۵؍اگست سے برِصغیر میں دو مملکتیں قائم ہو جائیں گی جن کی اپنی خودمختار قانون ساز اسمبلیاں ہوں گی اور جب تک وہ اَپنا اپنا دستور منظور نہیں کر لیں گی، اُس وقت تک 1935ء کے ایکٹ کو عارضی دستور کی حیثیت حاصل ہو گی۔ 14؍اگست کی دوپہر وائسرائے ہند کراچی آئے اور اُنہوں نے پاکستان دستورساز اسمبلی کے صدر اَور پاکستان کے نامزد گورنرجنرل قائدِاعظم محمد علی جناح کو اِقتدار منتقل کیا۔ 15؍اگست کی صبح پاکستان کی آزادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ تلاوتِ قرآن حکیم کے بعد قائدِاعظم نے پاکستان کے گورنرجنرل کا حلف اُٹھایا جس میں سب سے پہلے دستور سے وفاداری کا عہد کیا گیا تھا۔ اُس تقریب میں سب سے بڑا وَفد امریکہ سے آیا تھا اور اَمریکی صدر ہیری ٹرومین نے مبارک باد دَینے کے ساتھ ساتھ پورے تعاون کا یقین دلایا تھا۔

اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں آزاد ہوئے ۷۸ سال ہو چکے ہیں، مگر ہم قائدِاعظم کا پاکستان تشکیل نہیں دے سکے، کیونکہ ہمارے اندر غدار پیدا ہوتے رہے اور قومی سیاست کو باربار صراطِ مستقیم سے ہٹاتے رہے ہیں۔ ہمیں اِن شکایات کا جائزہ لینے سے پہلے آزادی کا دن پورے جوش و خروش سے منانا اور اَچھی اُمیدوں کا خوش دلانہ اظہار کرنا چاہیے۔ ہماری صدیوں پر محیط تاریخ یہ رہنمائی کرتی ہے کہ ہمارے کسی حکمران نے براہِ راست اپنے وطن اور قوم سے بےوفائی اور غداری کا اعلان نہیں کیا بلکہ وطن کو گزند پہنچانے والوں نے پہلا اعلان یہی کیا کہ وہ اَپنے عزیز وطن کو ناکارہ لوگوں سے نجات دلا کر ترقی کی بلندیوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اُن میں سے بعض مصلحین شروع شروع میں اچھے معالج بھی ثابت ہوئے، مگر اُن کے اندر جو منفی رجحانات رچ بس جاتے رہے، اُن کے باعث وہ اَیسے اقدامات کرتے چلے گئے جو وطن کی تباہی پر منتج ہوئے۔ وہ اِس زعم کا شکار ہوتے گئے کہ صرف وہی قوم کی نیّا کو بحفاظت ساحل پر لا سکتے ہیں۔ پھر اُن کے ذہن میں یہ خیال بیٹھتا گیا کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام اُن کی ذات اور جماعت کو اِستحکام میسّر آنے ہی سے آ سکتا ہے۔ پھر اُن کے حواری یہ قصیدہ الاپتے آ رہے ہیں کہ اُن کے سوا اَور تمام سیاست دان کرپٹ اور نااہل ہیں اور قوم صرف اُن کی فراست اور دِیانت پر اعتماد کرتی ہے۔ اِس انتہائی منفی سوچ نے اِس تصوّر کو جنم دیا ہے کہ حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کو کسی دستور یا ضابطے میں مُقَیَّد ہونے کی ضرورت نہیں۔ اُن کا قول اور فعل ہی آئین اور قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور وُہ اَپنی ضرورتوں کے مطابق بلاروک ٹوک یوٹرن بھی لے سکتے ہیں اور اَپنے غلط فیصلوں سے ملک اور قوم کو بڑے بڑے نقصانات پہنچانے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ہم اگر اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اِن منفی رجحانات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو پاکستان دن دوگنی اور رَات چوگنی ترقی کر سکتا اور ایک عالمی قوت بن کر اُبھر سکتا ہے اور وُہ ایک عالمی طاقت بنتا بھی جا رہا ہے۔

تازہ ترین