تین چار خبریں بہت اچھی اچھی سنائی دے رہی ہیں،ایک تو یہ کہ خلیجی ملکوں سے پاکستانی ساحلوں کا قانونی رابطہ بڑھ جائے گا کہ فیری سروس کیلئے پہلا لائسنس جاری کردیا گیا ہے،جس سے پسنی،گوادر یا منوڑہ سے تیز رفتارکشتیاں چلیں گی۔پھر مقابلے میں کچھ ویسی کمپنیاں بھی آئیں گی جنہوں نے ترکیہ ،یونان اور اطالیہ کے درمیان سمندری سفر کو عجیب رومان بھرا بنادیا ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ ہمیں ایک عشرے سے بتایا جا رہا تھا کہ ایرانی بندرگاہ بندر عباس کو بھارتی سرمائے اور سیاست کے زور پر گوادر کے مقابلے پر لایا جائے گا یعنی گوادر کی سہولتوں کی کشش کو کم کیا جائے گا لیکن ایران کے صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کی گرم جوشی نے امید پیدا کردی ہے کہ نہ صرف بلوچستان اور ایران کے راستےتیل اور دیگر سازوسامان کی تجارت کو قانونی بنایا جائے گا اور بندرعباس سے پاکستانی تاجروں کو سہولتیں ملیں گی بلکہ گوادر میں ایران بھی چین کی سرمایہ کاری میں شرکت کر سکتا ہے۔ گیس پائپ لائن بھی بچھ سکتی ہے،ریل کا رابطہ بھی بڑھ سکتا ہے اوربلوچستان سے جانے والے زائرین کی بسوں کی منزل کو زخموں بھرا بنانے والوں کے منصوبے بھی ناکام کئے جا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بھٹو کے دور میں پاکستان اسٹیل مل لگانے والا روس اس مل کی بحالی اور توسیع کے منصوبے میں سرمایہ کاری کرے گا ۔یوں دنیا میں پاکستان کا نام ایک ایسے آزاد ملک کے طور پر لیا جا رہاہے جس میں ترقی اور خوش حالی کے بہت مواقع ہیں۔
ایک وقت تھا ہمارا ایک تعلیم یافتہ کرکٹر اپنی والدہ کے نام پر پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال بنا رہا تھا اور اخبارات میں لمبے لمبے مضمون بھی لکھ رہا تھا کہ موٹر وے بنانے والودریائے سندھ کی طاقت پر غور کروواٹر وے بنائو،شمالی علاقوں میں مردوں کی صرف پسندیدہ مچھلی نہیں ملتی، بجلی کی جل پریاں بھی دائیں بائیں ہیں۔ انہیں رام کر لو گے،تعلیم کو صفائی اور شائستگی سے جوڑ لو گے اور اگر مشروب مشرق کو فروغ دو گے لوگوں کی خواب گاہوں میں جا کے نہیں جھانکو گے ،احتساب کو انتقام کیلئے نہیں دیانت کو لڑکھڑانے سے بچانے کیلئےاستعمال کرو گے تو پاکستان یہ صدی نہیں آئندہ صدی بھی ایسی دیکھے گا جو جناح اور اقبال کے خواب کی تعبیر کو قریب تر لائےگی۔
٭٭٭٭
بہت پہلے کی بات ہے کہ ایچ ای سی کی ایک ٹیم ملتان یونیورسٹی کی مالی مشکلات کا جائزہ لینے آئی میں عادت کے مطابق بڑھ بڑھ کے دکھڑے سنا رہا تھا کہ ہمیں اپنے طالب علموں کی تربیت کیلئے یہ سہولتیں چاہئیں،نئی بسوں اور تین ادھوری عمارتوں کی تعمیر و تکمیل کیلئے ،کتاب خانے کیلئے کمپیوٹر وغیرہ ۔ایک صاحب اختیار میری باتیں غور سے سن رہے تھے اور میں سمجھ رہا تھا کہ وہ متاثر ہو رہے ہیں مگر اٹھتے ہوئے انہوں نے زہریلے لہجے میں کہا’دیکھیں جی دعا کریں پاکستان کا ہی تیل نکل جاوے یا پاکستان میں سے تیل نکل آوے‘... اس کے بعد سے ہم یہی خواب دیکھتے آئے کہ کبھی نہ کبھی کہ پاکستان سے تیل نکل آئے تو ہم بھی اپنے ہمسائے ایران جیسے امیر ہو جائیں۔ پھر جب بلوچستان کے علاقے ریکو ڈک سے تانبے کی کانیں دریافت ہوئیں جن میں سونے کے ذخائر بھی تھے،پھر تھرپارکر سے کوئلہ نکلا جسے’’کالا سونا‘‘ کہا گیا،پھر سوات اور چترال سے زمرد کی کانیں دریافت ہوئیں،ہماری گردش اور’’گردشی قرضے‘‘ ختم نہ ہوئے ۔ پھر معلوم ہوا کہ سروے اور ڈرلنگ کا روایتی طریقہ چھوڑ دیا گیا اب تو سیٹلائٹ زمین ہی نہیں سمندر میں بھی جھانک کے بہت کچھ بتا سکتا ہے اور وہ’’راز‘‘ بیرونی کمپنیوں کو فروخت کئے جاتے ہیں کوئی دو تین برس پہلے جب وزیر اعظم ہائوس کی دیواروں پر آکے گوشت کھانے والے جنات کو مسخر کرنے والی ایک نیک بی بی کے ہم بھی مرید تھے تو انہوں نے اپنے ایک مقدس خواب کا ذکر کیا تھا کہ بحیرہ عرب میں پاکستان کیلئے گیس اور تیل کا بڑا ذخیرہ محفوظ پڑا ہے اور اب جبکہ امریکہ کے صدر ٹرمپ پاک بھارت حالیہ جنگ میں پاکستانی فوج کی دلیری سے متاثر ہوئے تو انہوں نے ڈرامائی اعلان کیا کہ پاکستان میں گیس اور تیل کے اتنے ذخائر ہیں کہ وہ کل کو اپنے حریف بھارت کو بھی یہ تیل فروخت کر سکتا ہے تو ہم پاکستان کے ان سائنس دانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں جنہیں دو دو مرتبہ ہلال امتیاز مل چکا ہے ،ہماری دو تین جامعات کی سربراہی کر چکے ہیں مگر آج کے اخبارات میں ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے دو ارب روپے کا امدادی پیکیج دیا گیا ہے۔جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے وائس چانسلر نے بھی ایک ارب روپے کی عبوری امداد مانگی ہے تاکہ استادوں اور ملازمین کو تنخواہیں دی جا سکیں۔ ایچ ای سی کے نئے سربراہ کا تقرر ابھی ہونا ہے اور جناب رضا ربانی کے سیاسی مستقبل کا بھی جو چار برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ صحت کے ساتھ تعلیم بھی صوبوں کی تحویل میں ہونی چاہئے۔
٭٭٭٭
قیام پاکستان کے بعد کراچی آنے والےبعض تعلیم یافتہ لوگوں نے سندھی اجرک اور ٹوپی کو اپنا پہناوا ماننے سے انکار کیا تو مجھے فیض عابد عمیق مرحوم کی پنجابی(سرائیکی) نظم’’تل وطنی‘‘یاد آئی اس کا آخری بند ہے
’’ جیویں سجھ ہے
جیویں چندر ہے
جیویں اگوں آون والے نویں ڈیہنہ ہن
جیویں بال ہن
بھاویں ایہہ جتھوں دے ہوون
تل وطنی ہن
بھانویں ول ہک پھیری سوچو
ہر شے سوہنی تل وطنی اے
(مقامی کیا ہے؟ جیسے سورج،جیسے چاند جیسے آنے والے نئے دن ،جیسے بچے وہ کہیں کے ہوں،سب مقامی ہیں،آپ ایک مرتبہ پھر سوچ لیں میں تو کہوں گا ہر شے جو خوبصورت ہے وہ مقامی ہے)۔