• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’نو مئی‘نے ہمیں ایک ہی سبق دیا ہے۔ پاکستان میں آئندہ کبھی ’نو مئی‘ نہیں آنا چاہئے۔ باقی سب تفصیلات ہیں۔

نو مئی ایک دن میں نہیں ہوا تھا، ایک سفر تھا جس کی منزل نو مئی طے پائی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ایک جملہ، کوئی ایک نعرہ پورے عہد، پوری تحریک کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، جیسے انقلابِ فرانس کو لبرٹی، ایکویلٹی اور فرٹرنٹی، امریکا کی تحریکِ آزادی کو نو ٹیکسیشن ودآؤٹ رپریزینٹیشن، اور امریکی شہری حقوق کی تحریک کو آئی ہیو اے ڈریم کے نعروں نے اپنے اندر سمو لیا تھا۔ اسی طرح نو مئی کو ایک نعرے نے تصویر کر دیا تھا، نعرہ تھا ’’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘‘۔

جب عمرانی حکومت جانے کے آثار پیدا ہوئے تو عمران خان نے آئی ایم ایف اور ریاستِ پاکستان کے درمیان معاہدہ توڑ کر پٹرول کی قیمت کم کر دی، اس سے پاکستان کو آنے والے دنوں میں کیا معاشی نقصان پہنچا یہ ایک طویل کہانی ہے، اس فیصلے کا معنیٰ تھا خان نہیں تو پاکستان نہیں، جب عمرانی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی گئی تو عمران خان نے ایک ہفتے کے دوران پانچ مرتبہ ریاستِ پاکستان کا آئین توڑا، اور ان کی حکومت ختم ہوئی تو قومی اسمبلی سے باجماعت استعفیٰ دے دیا تھا، اس کا مطلب تھا خان نہیں تو آئین نہیں، خان نہیں تو نظام نہیں۔ اسی دماغی کیفیت میں پاکستان کے تین ٹکڑوں میں بٹنے کی ہرزہ سرائی کی گئی، اسی مائنڈ سیٹ نے پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی بات کی تھی۔ دنیا کے بڑے معاشی اداروں کو پاکستان کے ساتھ معاہدوں سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی؟ اس کا نقصان تو براہِ راست پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو پہنچنا تھا؟آپ نے کروڑوں پاکستانیوں کو اپنی ریڈ لائن کیوں نہیں سمجھا؟ عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوں گے، اگر ہوں گے بھی تو ہزاروں جاں نثاروں کے جلو میں، ریاست کے اہل کاروں کو زمان پارک داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کوئی آیا تو اس پر پٹرول بم گرائے جائیں گے، یہ سب کیا ہو رہا تھا؟ انقلابی ہر طرف دھاڑتے پھرتے تھے اگر خان کو پکڑا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔ فدائین صبح شام خانہ جنگی، خانہ جنگی کا یہ وظیفہ دہراتے ہی رہا کرتے تھے۔ یہ ہے وہ آنکھوں دیکھا احوالِ سفر جو 9مئی کے سانحے پر منتج ہوا۔ ہماری تاریخ میں نو مئی کی کوئی مثال نہیں ملتی، سیاسی جماعتوں کو مقتدرہ سے شکایتیں بھی رہی ہیں، ان کے راہ نماؤں نے جیل اور جلاوطنی بھی بھگتی ہے، حتیٰ کہ پھانسی گھاٹ تک سجائے ہیں، مگر کسی سیاسی جماعت کے سربراہ نے یہ فرمان جاری نہیں کیا کہ بھٹو نہیں تو پاکستان نہیں، نواز نہیں تو پاکستان نہیں۔ اب ذرا نو مئی پر بھی نظر ڈال لیں کہ وہ کیا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔

نو مئی ایک منظم کارروائی تھی، قلبِ لشکر، میمنہ، میسرہ کے درمیان کامل ہم آہنگی دکھائی دے رہی تھی، یلغار کا حکم ملتے ہی جتھے’’دشمن‘‘پر ٹوٹ پڑے، ایک ہی دن، ایک ہی وقت، ملک کے طول و عرض میں، دفاعی اداروں کی تنصیبات اور عمارتوں پر لشکر کشی کی گئی، آتش زنی کی گئی، توڑ پھوڑ کی گئی، حتیٰ کہ شہداء کی یادگاروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ہم نے یہ شرپسند جتھے اکٹھے ہوتے ہوئے دیکھے، ہم نے ان کے ’’انقلابی‘‘ عزائم سنے، اور پھر ہمیں نو مئی کی رات پارٹی قیادت کے درمیان ٹیلیفونوںپر مسرور گفتگو سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہم نے یہ بھی سنا کہ جس ادارے کے دستے مجھے گرفتار کریں گے احتجاج بھی اسی ادارے کے خلاف ہو گا، ہم نے یہ بھی سنا کہ اگر مجھے پھر گرفتار کیا گیا تو پھر ایک اور نو مئی ہو گا۔ یہ وہ منظر ہے جو سب کو نظر آ رہا تھا، اب پسِ پردہ چلتے ہیں۔ فوج کے اندر نقب لگائی جا رہی تھی، چین آف کمانڈ توڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی، انقلاب کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اس انقلاب کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے؟ خدا نہ خواستہ یہ انقلاب کام یاب ہو جاتا تو فوج کا نظم ٹوٹ جاتا، ملک میں خانہ جنگی کا خواب پورا ہو جاتا، پاکستان کی سالمیت داؤ پر لگ جاتی، یہ ہے اس نعرے کی تفسیر، خان نہیں تو پاکستان نہیں۔

دیوانگی کی یہ داستان یہاں تمام نہیں ہوتی۔ جب بغاوت ناکام ہو گئی تو معافی تلافی کے بجائے پارٹی نے یہ بیانیہ گھڑا کہ نو مئی تو فوج نے خود کروایاہے، خود اپنے طیارے جلائے ہیں، خود شہداء کی یادگاریں جلائی ہیں، خود اپنے ادارے کی توہین کی ہے۔ اور اس نادرِ روزگار بیانیے کے حق میں یہ دلیل تراشی کہ ادارے کے اہل کار نو مئی کو عمارتوں کی حفاظت کیوں نہیں کر رہے تھے یعنی انہوں نے عوام پر فائرنگ کیوں نہیں کی۔ یہ بیانیہ عقل کی توہین ہے۔ پچھلے ہفتے نو مئی کے کیسز کا فیصلہ آیا تو سیاق و سباق کے یہ مناظر تازہ ہو گئے۔ ہمیں اپنی عدالتوں پر ناز نہیں ہے، مگر جو کچھ ہم نے دیکھا وہ رقم کر دیا۔ عدالتی فیصلوں میں قانونی سُقم ہیں تو اگلی عدالتوں میں دور ہو سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے جمہوری اور انصاف کے ادارے نقاہت کا شکار ہیں، اور یہ بھی سچ ہے کہ قریباً 15 برس قبل اس شکستگی کی بنا رکھنے والوں کے کاندھے پر عمران خان سوار تھے۔

بہرحال، نو مئی سے سب فریقین کو سیکھنے کی ضرورت ہے، اداروں کو لاڈلے پالنے سے کنارہ کش ہونا پڑے گا، پی ٹی آئی کو پُر تشدد سیاست سے تائب ہو کر ریاست اور سیاست کا فرق سمجھنا ہو گا۔ زرداری صاحب نہیں ہوں گے، میاں صاحب نہیں ہوں گے، خان صاحب نہیں ہوں گے، مگر پاکستان قائم رہے گا۔ نو مئی نے ہمیں ایک ہی سبق دیا ہے۔ پاکستان میں آئندہ کبھی ’’نو مئی‘‘ نہیں آنا چاہیے۔

تازہ ترین