تحریک انصاف کا سفر ایک ایسے خواب سے شروع ہوا تھا جس نے نوجوانوں، متوسط طبقے اور اُن لوگوں کو اُمید دلائی تھی جو ماضی کی سیاست سے بدظن ہو چکے تھے۔ کرکٹ کے میدان سے اُبھرنے والا ایک سپر اسٹار جب کرپشن کیخلاف اور ریاستِ مدینہ کے نعرے کے ساتھ سیاست میں داخل ہوا تو لاکھوں لوگوں نے اُسے اپنا نجات دہندہ سمجھا۔ عمران خان کے گرد ایک ایسی شخصیت پرستی تشکیل دی گئی جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں اپنی نوعیت کی منفرد تھی۔ مگر سیاست صرف نعرے، مقبولیت یا جوش و خروش کا کھیل نہیں یہ تدبر، لچک، سمجھوتے، اور وقت کی نبض پہچاننے کی سائنس بھی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اس سائنس کو سمجھنے میں بُری طرح ناکام رہے۔ خطے میں حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کیلئے ایک نئی علاقائی حقیقت وجود میں آئی تھی۔ چین، وسطی ایشیائی ریاستیں، ایران اور عرب دنیا پاکستان کیساتھ نئے تعلقات کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ پاکستان کی اسٹرٹیجک اہمیت ایک بار پھر عالمی سطح پر نمایاں ہو رہی تھی۔ مگر اس سارے تناظر میں، جب ریاستِ پاکستان ادارہ جاتی یکجہتی کی طرف بڑھ رہی تھی، عمران خان نے ریاستی اداروں سے تصادم، عدلیہ کو متنازعہ بنانے اور فوج کو براہِ راست سیاسی تنقید کا نشانہ بنانے کو اپنی حکمت عملی بنا لیا۔یہ وہ مقام تھا جہاں اُنہوں نے اپنی سیاسی قبر خود کھودی۔عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی مقبولیت کو ایک سنجیدہ ریاستی کردار میں ڈھالتے۔ جیسے ماضی میں محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق سے اختلاف کے باوجود معاملات کو پارلیمنٹ کی وقعت کے ساتھ نبھایا۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1971ءکی شکست کے بعد ایک نئی آئینی عمارت تعمیر کی۔ مگر عمران خان کی سیاست کا مرکز اپنی ذات، اپنی مظلومیت، اور اپنی انا بن چکی تھی۔ اُنہوں نے نہ کسی اتحادی کو برداشت کیا، نہ کسی اختلافی آواز کو سنا، اور نہ ہی کوئی سیاسی مشورہ مانا۔تحریک انصاف نے ایک وقت پر ملک کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان اگر صرف 20فیصد بھی تدبر، لچک اور مفاہمت کا مظاہرہ کرتے، تو آج اُنکی جماعت ریاست کی ایک فعال پارٹنر ہوتی۔ مگر اُنہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت اُن وکلاء کے سپرد کر دی جن کیلئے سیاست صرف عدالت کے کمرے میں لڑی جانے والی جنگ تھی۔ آج جب پاکستان علاقائی سطح پر ایک نئی قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، ترکی وغیرہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بات کر رہے ہیں۔ عسکری قیادت نے سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹ کر ایک ایسا پیغام دیا ہے کہ اب ریاست صرف آئینی فریم ورک کے اندر چلے گی۔ ایسے میں اگر سول حکومت، خاص طور پر وزیرِ اعظم شہباز شریف مہنگائی پر قابو پا لیں، گورننس بہتر ہو جائے اور روزگار کی فراہمی ممکن ہو جائے تو عمران خان کیلئے سیاسی میدان میں جگہ باقی نہیں رہے گی۔مگر حکومت بھی فی الحال اُس سطح پر کارکردگی نہیں دکھا پا رہی جسکی عوام کو توقع ہے۔ حکومت کیلئے یہی وقت ہے کہ وہ ریلیف پیکیج دے، سبسڈی لائے اور عوامی مفادات کو اپنی ترجیح بنائے۔ ورنہ جو خلاپیدا ہو گا، وہ پھر کسی نئے نعرہ باز کو جگہ دے گا، چاہے وہ عمران خان ہی ہو۔تحریک انصاف کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنی داخلی صفوں میں کسی ایسے شخص کو جگہ نہ دی جو اداروں سے کشمکش کے بجائے مکالمے کی راہ نکال سکے۔خان کے گرد ایک ایسا حصار کھینچ دیا گیا جہاں اختلاف جرم بن گیا اور چاپلوسی معیارِ وفاداری ٹھہری۔ یوں سیاسی مشاورت کا عمل زوال کا شکار ہو گیا۔جبکہ ریاستی اداروں کو للکارنے کی پالیسی اُس وقت اختیار کی گئی جب عالمی سطح پر پاکستان کو اتحاد، اندرونی استحکام اورپالیسی تسلسل کی اشد ضرورت تھی۔ ایسے وقت میں جب ریاست کا ہر ادارہ ایک صفحے پر آ کر ملکی استحکام کیلئے کوشاں تھا، تحریک انصاف نے اُسی صفحے کو پھاڑنے کی کوشش کی۔ نتیجہ: بند گلی، مکمل سیاسی تنہائی، قانونی بحران، اور نظریاتی انتشار۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جب بھی کسی لیڈر نے ریاست سے ٹکر لینے کی کوشش کی، انجام شکست ہی ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال سامنے ہے۔ وہ ایک مقبول ترین لیڈر تھے، مگر جب اُنہوں نے اداروں کو چیلنج کرنا شروع کیا، تو نظام میں دراڑیں پڑ گئیں، اور وہ خود اُس دراڑ میں دفن ہو گئے۔ نواز شریف نے بھی دو بار ایسی غلطی کی، اور دونوں بار اُنہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بینظیر بھٹو نے اگرچہ اداروں سے سخت لڑائیاں لڑیں، مگر کبھی خود کو ریاست کیخلاف نہیں کیا۔عمران خان نے اس تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا۔آج بھی اگر وہ ہوش کے ناخن لیں، اپنی سیاست میں اعتدال، مفاہمت اور حقیقت پسندی کو جگہ دیں، اپنی پارٹی میں دوبارہ سیاسی ذہن رکھنے والے لوگوں کو آگے لائیں، تو شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی ضد، اپنی انا اور اپنے مخصوص نقطہ نظر سے باہر آئیں۔ سیاست صرف جیل، ضمانت، عدالت یا سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کا نام نہیں یہ زمین پر رہنے والے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے۔جیسا کہ پہلے عرض کیاہے کہ عسکری قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ فوج اب سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھے گی۔ یہ ایک سنہری موقع ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح کریں، عوامی خدمت کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں، اور وہ خلا جو سالوں سے موجود تھا، اُسے پر کر کے عوامی اعتماد دوبارہ حاصل کریں۔ موجودہ حکومت کو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے حکومت کی کارکردگی بھی تاحال صرف بیانات اور اعلانات تک محدود ہے۔ عوام کو جو سب سے اہم مسئلہ درپیش ہے، وہ ہے مہنگائی۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا، تو وہی مایوسی عوام کو دوبارہ کسی نئے خان، کسی نئے نعرے کی طرف دھکیل دے گی۔