• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شوگر ملوں کے بارسوخ مالکان پچھلے کئی عشروں سے چینی کی قیمتوں میں من مانے اضافے کیلئے مصنوعی قلت پیدا کرنے کا حربہ آزماتے چلے آرہے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی یہ کھیل سابقہ دور حکومت ہی کی طرح کھیلا گیا ۔ قوم کو ملک میں چینی کے وافر ذخائر کی خوشخبری سناکر بھاری مقدار میں چینی برآمد کردی گئی اور پھر مبینہ طور پر ذخیرہ اندوزی کرکے چینی کی شدید قلت کا تاثر عام کیا گیا اور یوں قیمتیں بڑھانے کی راہ ہموار کی گئی۔ اس کھیل کا نتیجہ یہ ہے کہ چار پانچ سال پہلے جو چینی سو روپے فی کلو سے کم میں بآسانی دستیاب تھی،وہ اب دو سو روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے حالانکہ حکومت اور مل مالکان کے درمیان ملک بھر میںایک سو پینسٹھ روپے فی کلو کا معاہدہ طے پاچکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس صورت حال کے اسباب کا جائزہ لینے کیلئے قومی اسمبلی کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو یہ دیکھے گی کہ پالیسی کی خامیوں، برآمدی مراعات اورکاروباری حربوں نے مل مالکان کو تقریباً 300 ارب روپے کا غیر معمولی منافع کیسے دلایا اور کیا ایک نیا ٹیکس لگا کر اس منافع کا کچھ حصہ صارفین کو ریلیف دینے کیلئے واپس لیا جا سکتا ہے۔یہ کثیر الجماعتی کمیٹی، جس کی سربراہی پی ٹی آئی کے عاطف خان کر رہے ہیں، اس بات کی تحقیقات بھی کریگی کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے سے خفیہ طور پر فائدہ اٹھانے والے کون ہیں۔ یہ انکوائری برسوں سے جاری قیمتوں کے چکر، برآمدات اور درآمدات کے اتار چڑھاؤ اور حکومتی ڈی ریگولیشن کے اثرات کا جائزہ لے گی۔واضح رہے کہ آڈیٹر جنرل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں تصدیق کرچکے ہیں کہ شوگر مل مالکان نے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور برآمدی پالیسیوں سے بڑے پیمانے پر فائدہ اٹھایا جس کے بعد کچھ مل مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی ڈالے گئے تھے۔اس تناظر میںیہ تحقیقات خوش آئند ہے بشرطیکہ ماضی کی طرح بے نتیجہ نہ رہے اور مسئلہ مستقل طور پر حل ہوسکے ۔

تازہ ترین