• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروین شاکر،شاعرہ تو تھیں،وہ کالم بھی لکھتی تھیں،بہت اچھی گفتگو بھی کرتی تھیں۔ویسے تو پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہر دور مشکلات کا تھا۔تب بھی ایک ٹرائیکا (اقتدار کی مثلث) کا چرچا تھا ضیا الحق کے جانشیں کے طور پرغلام اسحاق خان کو آرمی چیف جنرل مرزااسلم بیگ کی تائید حاصل تھی، خان بابا خود بیوروکریٹ تھے ، ضیا الحق نے کافی شجرے دیکھ کے جسے وزیر اعظم بنایا تھا اسی محمد خان جونیجو نے سپریم کورٹ میں اپنی اور اپنی اسمبلی کی بحالی کی اپیل دائر کر دی تھی تب کسی اور نے نہیں مرزا اسلم بیگ نے ہی کھل کے کہا کہ میں نے سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد کو ایک پیغام دے کر عزت مآب چیف جسٹس کے پاس بھیجا تھا کہ اسمبلی بحال کرنیکی ضرورت نہیں،نئے انتخابات ہونے دیں،اس پر تب کے چیف جسٹس نے ہمت دکھائی اور مرزا صاحب کو عدالت میں طلب کیا کہ کیوں نہ آپکو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جائے۔مرزا صاحب شاید اپنے لئے ایک سنہری مستقبل دیکھ رہے تھے انہوں نے کہا عدالت سینیٹ کے چیئرمین کو طلب کر کے پوچھ لے کہ وہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے جی ایچ کیو نہیں آئے تھے؟ یہاں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ وسیم سجاد بھی جالندھر کے تھے آکسفورڈ سے تعلیم پائی تھی،اتنے بڑے وکیل تھے کہ شریف خاندان کے منظور نظر تھے اور پیپلز پارٹی کے پر کترنے کے جو منصوبے بنائے جا رہے تھے شاید اس پر انہیں کسی سطح پر اعتماد میں لیا گیا ہوگا ،بہرطور ریٹائرڈ جسٹس سجاد احمد جان کے صاحب زادے بیرسٹر وسیم سجاد عدالت میں گئے اور مختصر بات کی کہ میں جی ایچ کیو ضرور گیا تھا ایک اور معاملے پر مشاورت کیلئے، مجھے چیف جسٹس تک کوئی پیغام پہنچانے کا نہیں کہا گیا۔ یوں بظاہر توہین عدالت کا معاملہ ختم ہوا، محمد خان جونیجو جو اپنی کابینہ یا اسمبلی کی بحالی کی توقع میں اسی عدالت کو پرزور یقین دہانی کرا چکے تھے، عدلیہ کے فیصلے سے کافی آزردہ ہوئے،کیونکہ اتفاق سے وہی فیصلہ ہوا جو مرزا صاحب چاہتے تھے۔ بہرطور اقتدار کے کھلاڑیوں نے اطمینان ظاہر کیا کہ گرد بیٹھ گئی ہے،سو اسی زمانے میں پروین شاکر نے اپنے کالم میں لکھا کہ سبھی ایک دوسرے کو مبارک دے رہے ہیں مگر وسیم سجاد کے موجودہ منصب اور صدارت میں اب ایک ’’حادثے‘‘ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ پروین شاکر خود بہت جلدی میں تھیں وہ امریکہ جاکے پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی تھیں ا نکی افسری کے باوجود انہیں ستانےوالے بھی کم نہیں تھے،وہ اس زمانے میں ملتان بھی آئی تھیں، وائس چانسلر ڈاکٹر غلام مصطفی چوہدری نےانکی موجودگی میں بتایا کہ پروین شاکر امریکہ کی اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہیں جہاں سے چوہدری صاحب نے فیض پایا تھا اسلئے وہاں کے صدر شعبہ نے انہیں اپنی ریسرچ پر مصطفی صاحب سے مشاورت کرنے کو کہا۔ تب میں نے انہیں کہا تھا کہ آپکو اپنے کلیات کا نام ’’ماہ تمام‘‘ نہیں رکھنا چاہئے تھا یہ ایک طرح سے بد شگونی ہے شاعر تو زندگی کے آخری سانس تک شاعر ہوتا ہے،انہوں نے ایک اداس مسکراہٹ سے کہا تھا کہ مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ میں کہہ چکی ہوں۔قصہ مختصر! بقول پروین شاکر، سینیٹ کا صدر نشیں سوچ سمجھ کرلایا جاتا ہے ،میاں رضا ربانی یہاں آ تو جاتے ہیں مگر اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں،پھر پیر صاحب پگاڑوکے نامزد یا تربیت یافتہ صدر نشیں کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭٭٭٭

جنرل ضیا الحق نے ربیع الاول میں جو رحمتہ اللعالمین خاتم النبیین اتھارٹی بنائی تھی،جس کے تحت سیرت کتب کو انعامات ملتے ہیں سیمینار اور نعتیہ مشاعرے ہوتے ہیں۔ ان کے واجب الاحترام اراکین کی ہر تین برس کے بعد نامزدگی ہوتی ہے،علاوہ سرکاری اراکین (بہ لحاظ عہدہ) سو اس مرتبہ بھی چھ اراکین کے نام نامی اخبارات میں شائع ہوئے۔اگر آپ کا نام خدا نخواستہ کسی کمیٹی کیلئے تجویز ہو تو چھ سات ادارے آپ کے کردار اور کوائف وغیرہ چیک کرتے ہیں تب جا کے وزارت تعلیمات سے یہ نام وزیر اعظم کی سرکاری میز تک پہنچتا ہے۔ آج کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ ان چھ ناموں میں سے ایک خاتون کا نام ایسا ہے جو اب اس دنیا میں نہیں۔ مجھے کچھ ذاتی معلومات اسلئے ہیں کہ محترمہ ڈاکٹر فرخندہ ضیا کو ویمن یونیورسٹی ملتان کی وائس چانسلر بنا کے بھیجا گیا تھا،بے شک ان کے پاس شریعہ لا میں بہت بڑی ڈگری تھی مگر انہیں مقرر کرنے والے شاید ا نکی میڈیکل رپورٹوں سے ناواقف ہوں گے وہ یونیورسٹی میں ایک ایمبولینس میں سوار ہوکے آئیں اورا سٹریچر پر ہی انہیں سرکاری قیام گاہ پر پہنچایا گیا۔ اسی حالت میں انہوں نے استعفیٰ بھی دیا اور اس کا ایسا اسلوب رکھا کہ رحم دل وزیراعلیٰ پنجاب اسے منظور نہ کریں۔پھر ایسا ہوا کہ وہ ’’سچے جہان‘‘ میں چلی گئیں۔اب بتایا گیا ہے کہ چھ ہفتے لگیں گے نئی نامزدگی کو وزیراعظم کے ڈیسک تک پہنچنے میں۔

٭٭٭٭

خیر پور ٹامے والی کے ہمارے انور سین رائے نے ناول لکھے،تراجم کئے،بی بی سی سے وابستہ رہے اب انکا کلیات شائع ہوا ہے ’’کچھ محبت، کچھ بے بسی‘‘ جس میں انکا 1973ء سے 2023ء تک کلام شامل ہے۔ مناسب ہوگا کہ انکی ایک نثری نظم ’’محب وطن حکام اور شہریوں سے‘‘ کے کچھ مصرعے پیش کر دوں۔

مجھے اس ملک کا سمجھا جائے؍مجھے ایک درخت سمجھ لیا جائے یا کوئی پودا؍سب سے ناکارہ؍جلنے کے سوا ہر کام کیلئے بے کار؍مجھے اس ملک کا پہاڑ نہیں؍ ٹیلہ ہی سمجھ لیا جائے؍مٹی ہی سمجھ لیا جائے؍کمہار کے چاک والی نہیں؍صرف اینٹیں بنانے کے لائق؍میں درخواست کرتا ہوں؍میرے پیدا ہونے کے بارے میں ؍کوئی تحقیق نہ کی جائے ؍سب کچھ کیا جائے؍لیکن نہ کیا جائے مجھے؍بے وطن

تازہ ترین