سندھ کے دانشوروں کو اس بات پر فخر ہے کہ سندھ کے عوام نے آج تک کسی بھی حلقے کے بارے میں نفرت کا اظہار نہیں کیا۔سندھ تو محبت‘ امن اور آشتی کا گھر ہے مگر سندھ کے عوام اور خاص طور پر سندھ کے دانشوروں کو اس بات پر شدید افسوس ہوتا ہے کہ کچھ حلقے پہلے سندھ کو نشانہ بنا رہے ہوتے تھے اب انہوں نے سندھ کی ثقافت اور اس کی ایک اہم نشانی ’’اجرک‘‘ کو انتہائی غلط انداز میں نشانہ بنانا شروع کردیا ہے‘ کچھ عرصہ پہلے سندھ کے عوام کو یہ دیکھ کر شدید افسوس ہوا کہ باہر سے آکر سندھ میں آباد ہونے والے ہمارے ’’مہربان‘‘ حلقوں کے جوان ایک چینل پر ڈانس کرتے ہوئے اپنے جوتوں کو اجرکیں مارکر صاف کرتے اور قہقہے مار رہے تھے‘ اس طرح وہ اجرک اور سندھ کی ثقافت سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کررہے تھے۔اسی دوران حکومت سندھ نے فیصلہ کیا کہ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر اجرک پرنٹ ہو‘ اس کے خلاف ہمارے ان ’’مہربانوں‘‘ نے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے‘ اس نفرت کا اظہار کرنے والوں میں ہمارے ان ’’مہربانوں‘‘ کے دانشور بھی شامل ہیں‘ یہ سب کچھ دیکھ کر سندھ کے عوام کو شدید افسوس ہوا ہے حالانکہ جب یہ مہربان ہندوستان کو ترک کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تو سیدھے سندھ آئے‘ جب یہ ’’مہربان‘‘ سندھ میں داخل ہوئے اور مختلف شہروں اور گائوں میں آباد ہوئے تو ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی گئی بلکہ ان کو مختلف مقامات پر لوگوں نے اپنے گھروں میں بسایا۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ ان میں سے کچھ ہمارے مہربان ٹرین کے ذریعے بھی ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہوئے ان مین سے ایک ٹرین سندھ کے ایک ایسے علاقے میں خراب ہوگئی جہاں اردگرد گائوں تھے جب یہ ٹرین وہاں رکی تو گائوں کے لوگ ٹرین کے پاس آگئے۔ ایک ڈبے میں ہندوستان سے آیا ہوا ایک خاندان تھا‘ وہاں بتایا گیا کہ کافی عرصے سے ان کو کھانا نہیں ملا اور خاندان کے لوگ کافی بھوکے تھے‘ یہ سن کر گائوں کے لوگ اپنے گھروں کو گئے اور وہاں جلدی کھانے بنواکر ٹرین کے اس ڈبے کے پاس لے آئے اور ان پریشان مسافروں کو کھانا فراہم کیا‘ یہ خاندان یہ کھانا کھاکر بہت خوش ہوا اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے یہ لوگ ڈبے سے باہر آکر گائوں کے لوگوں سے ملے اور شکریہ ادا کرنے لگے ‘ہمارے یہ مہربان سندھ کے شہروں خاص طور پر کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر وغیرہ میں کافی اکثریت میں ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف چھوٹے شہروں میں بھی آباد ہیں مگر آج تک ان چھوٹے شہروں اور گائوں وغیرہ میں سے کسی نے مہربان خاندانوں کو زبردستی نکالنے کی کوشش نہیں کی ۔ ایسی حرکت کو سندھ کے لوگ سندھ کی ثقافت کی توہین تصور کرتے ہیں‘اجر ک کے بارے میں‘ میں ایک اہم اور دلچسپ بات بھی میں اس کالم کے ذریعے اپنے ان مہربانوں کے علم میں لانا چاہتا ہوں‘ جب اس علاقے میں اسلام پھیلا تو سندھ کے عوام نے اسلام کا انتہائی شاندار استقبال کیا‘ سندھ میں مساجد بننے لگیں اور سندھ سے مسلمان دھڑا دھڑا نہ فقط حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مگر عمرے کے لئے بھی سعودی عرب خاص طور پر مکے اور مدینہ کی زیارت کرنے کے لئے جاتے تھے‘ ان میں سے اکثر خاص طور پر مسجد نبوی ضرور جاتے تھے تاکہ ہمارے پیغمبر حضور اکرمؐ کی زیارت کریں‘ ایک روایت کے مطابق ان میں سے کچھ مسلمان اپنے ساتھ سندھ کی اجرک بھی ساتھ لاتے تھے اور تحفے کے طور پر حضور اکرمؐ کو پیش کرتے تھے‘ حضور اکرمؐ اسے لیکر بہت خوش ہوتے تھے‘ سندھ سے آئے ہوئے یہ مسلمان اجرکیں حضور اکرمؐ کے کندھے مبارک پر سجاتے تھے‘ یہ سلسلہ کافی عرصے سے چلتا رہا‘ ایک بار سندھ سے آئے تین چار مسلمانوں نےاجرک حضور اکرمؐ کو پیش کیں تو حضور اکرمؐ بہت خوش ہوئے کہ مجھے سندھ کی یہ اجرک بہت پسند ہے‘ اس سے پہلے کوئی اسے اجرک نہیں کہتا تھا مگر یہ دیکھ کر حضور اکرمؐ نے اس تحفہ کا نام ’’اجرک‘‘ رکھا ہے،بہت خوش ہوئےاورجب یہ مسلمان واپس سندھ آئے تو انہوں نے مشہور کیا کہ حضور اکرمؐ نے اس کا نام ’’اجرک‘‘ رکھا ہے‘ یہ بات سارے سندھ میں بہت مشہور ہوئی،اس کے بعد سندھ کے عوام میں نہ فقط سندھ کی ثقافت کی یہ قسم بہت مقبول ہوئی اور اسے سندھ بھر میں ’’اجرک‘‘ کا نام دیا جانے لگا۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجرک عربی لفظ ہے‘ اس کے بعد سندھ کے لوگ اجرک سے عشق کرنے لگے‘ سندھ کے لئے اجرک نہ فقط ایک انمول ثقافت ہے بلکہ اجرک سندھ کے لئے انتہائی قابل احترام بھی ہے۔