• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت بہت رفتار سے اپنی چال چل رہا ہے دیکھتے ہی دیکھتے موجودہ حکومت کو ڈیڑھ برس سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا اور اب تو بین الاقوامی برادری یہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی کیلئے کون کون چہرہ بنتا چلا جا رہا ہے ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ پنجاب مريم نواز انطالیہ ڈپلومیسی فورم میں شرکت کی غرض سے ترکی گئی تھیںاور اسی فورم میں ، میں نے بھی شرکت کی تو وہاںایک ترک صحافی نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ کیا مريم نواز دنیا بھر میں پاکستان کا چہرہ بننے کی جانب رواں دواں ہیں ؟ جواب یقینی طور پر مثبت تھا ۔ اب خبر ہے کہ وہ جاپان کے دورے پر روانہ ہونیوالی ہیں تو مجھے اسی ترک صحافی دوست کی فون کال اس خبر کی تصدیق کیلئے موصول ہوئی کہ کیا مريم نواز جاپان جا رہی ہیں؟ ترک صحافی نےبتایا کہ وہ پاکستان کےمستقبل کے چہروں کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کر رہے ہیں اور اسی وجہ سےمريم نواز کے متوقع جاپان کے دورے میں بھی انکو دلچسپی ہے ۔ اس سے اندازہ با آسانی قائم کیا جا سکتا ہے کہ دنیا ان معاملات کو کتنی باریک بینی سے دیکھ رہی ہے اور جب دنیا ان معاملات کو چیل کی نظر سے دیکھ رہی ہے تو پاکستان کی تیاری بھی ششدر کر دینے والی ہونی چاہئے ۔ دورہ جاپان میں جاپان ایکسپومیں شرکت ایک مرکزی معاملہ ہے اور اس حوالے سے اپنے نقش ثبت کرنےکیلئے لازم ہے کہ جاپان کے حالات اور اندازِ سفارت کاری کو سامنے رکھتے ہوئے دورے کو ترتیب دیا جائے ۔ جاپان کا طریقہ کار یہ ہے کہ جاپان اپنے سفارت کاروں کو علاقائی ریجنز کی بنیاد پر تیار کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر پاکستان ، انڈیا وغیرہ کو ایک ریجن سمجھا جاتا ہے اور یہاں پر متعین سفارت کار اردو ، ہندی وغیرہ کو باقاعدہ پڑھتے ہیں ۔ اور اس میں اردو کی تعلیم تو اکثر جاپانی سفارت کار لاہور سے بھی حاصل کرتے ہیں اور اس طرح سے انکی پاکستان سے ایک لگاؤ کی بھی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ معاملہ چونکہ جاپان ایکسپو میں شرکت کا ہے تو یہ بہت اہمیت کی حامل حقیقت ہے کہ ان ریٹائرڈ جاپانی سفارت کاروں میں سے ایک قابل لحاظ تعداد اب وہاں پر بڑےکاروباری اداروں سے وابستہ ہے اور اگر ان سابق سفارت کاروں کو دورے سے زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کرنے کیلئے متحرک کر دیا جائے تو پاکستان کیلئے ایسا بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جو ابھی نظروں سے اوجھل محسوس ہو رہا ہے، ان تمام دروازوں کو کھول کر بدلتی دنیا کے تقاضوں سےبہ حسن و خوبی عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حاضر سروس جاپانی سفارت کار بھی اپنے ملک میں اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔ ان ریٹائرڈ اور حاضر سروس سفارت کاروں کو دورے میں اگرانگيج کرلیا جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ جاپان میں پاکستانی کمیونٹی بھی متحرک ہے اور ان کے سرکردہ افراد جیسے ملک نور اعوان ،جنکی پاکستان میں جمہوریت کیلئےبھی گرانقدر خدمات ہیں، کو اس دورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام میں لایا جا سکتا ہے ۔ کسی مسلمان اور وہ بھی ترک سے بات ہو رہی ہو اور غزہ گفتگو میں نہ آئے ، یہ ممکن ہی نہیں ۔ میرے ترک دوست نے استفسار کیا کہ امریکہ اس وقت بہت متحرک ہے کہ وہ عرب ممالک کو ابراہم معاہدے میں شامل کرنا چاہتا ہے بلکہ با الفاظ دیگر اسکے پردے میں اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتا ہے تو ایسی صورتحال میں تو پاکستان پر بھی دباؤ آسکتا ہے ۔ جواب میں کہا کہ تمام مسلمان ممالک کیلئے ابراہم معاہدے یا ایسی ہی کسی دوسری چال کو پرکھنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ جن مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے انکو اس سے کیا مفاد حاصل ہوا ؟ کیا انکی قومی سلامتی یا معاشی مفادات کو بہت تحفظ حاصل ہو گیا ؟ کیا ا نکے عوام نے بھی اسکو تسلیم کر لیا ؟ جواب یقینی طور پر نفی میں آئیگا اس لئے اس بات کا سرے سے امکان موجود نہیں ہے کہ پاکستان کوئی بھی قدم فلسطينیوں کی مرضی و منشا کے خلاف اٹھائے ۔ ویسے بھی نام چاہے ابراہم معاہدہ رکھ لیں یا کچھ بھی ، اس کی حیثیت مصنوعی نظام تنفس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ بالفرض محال طاقت کے زور پر عرب حکمرانوں سے کچھ بھی لکھوا لیا جائے مگر اس سے حقیقی معنوں میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے ، ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اتنی درندگی کے بعد بھی حماس تک تو ختم نہیں کی جا سکی اور جیسے جیسے یہ سفاکیت بڑھتی چلی جائیگی ویسے ویسے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ انسانیت پر یقین رکھنے والا ہر انسان فلسطين کے مسئلہ پر انکے ساتھ ہمدردی قائم کرتا چلا جائیگا ۔ اس مسئلہ کو کوئی نام نہاد معاہدہ حل نہیں کر سکتا ہے بلکہ جب تک اسرائیلی اور فلسطينی بھی آج کے دور اور تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی باہمی معاہدہ پر نہیں پہنچ جاتے ہیں اس وقت تک یہ آگ سلگتی رہے گی ۔ بین الاقوامی برادری کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیںاور اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیںکہ اسرائیلی اور فلسطينی کسی مشترکہ نکات پر پہنچ جائیں اور جنگ کے خاتمے پر مسلم دنیا تباہ شدہ علاقوں کو خاص طور پر سعودی عرب کی مدد سے بحال کرے جبکہ پاکستان ، ترکی اور انڈونیشیا کی افواج اس خطے کی سلامتی کیلئے ادھر تعینات کی جائیں ورنہ مصنوعی نظام تنفس کبھی مستقل نہیں ہو سکتا ہے ۔

تازہ ترین