• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 14اگست 2025ءہے میں پاکستان سے کچھ بڑا ہوں اسلئے پاکستان کی اٹھتر14اگستیں دیکھ چکا ہوں، میری پہچان تو یہی ہے۔ یہ جو شاعر، صحافی محمود شام ہے جو پاکستان کے بڑے میڈیا گروپوں میں اعلیٰ عہدوں پر پورے اعتماد سے خدمات انجام دے چکا ہے میرا کوئی بڑا خاندان نہیں تھا پاکستان نہ بنتا تو میں وہیں غیرمنقسم ہندوستان میں کسی ہندو مسلم فساد میں مارا گیا ہوتا اور میری کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ مجھے یہ عزت یہ مقام یہ احترام پاکستان سے ہی ملا ہے بہت گلے شکوے بھی ہیں۔ میرٹ کا قتل عام ہے لیکن اس میں 14اگست یا پاکستان کا قصور نہیں ہے۔ اس کے ذمہ دار پاکستان کے وہ حکمراں ہیں جو 1947ء سے کسی نہ کسی صورت میں صدر، وزیراعظم بنتے رہے، ان فوجی حکمرانوں کا بھی ہے جو سول امور میں مداخلت کرتے رہے مارشل لا لگاتے رہے اور ان سیاسی پارٹیوں کا بھی جو 1958ءسے فوج کی بی ٹیم بنتی آ رہی ہیں۔

پاکستان دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر بسی آبادی دنیا کی تاریخ میں بہت اہم مقام رکھتی ہے یہ تہذیب و ثقافت کا مرکز ہزاروں سال سے ہے کہیں پانچ ہزار سال پرانے آثار ملتے ہیں کہیں 8ہزار سال کی یادیں سوئی ہوئی ہیں کئی 10 ہزار سال تک پرانی تہذیبوں کے آثار بھی ملے ہیں۔14اگست 1947ء قائداعظم کی قیادت میں ہم نے جو ملک حاصل کیا جس کے دو بازو تھے ایک طرف ایک ہی صوبہ مشرقی بنگال اور ادھر پنجاب، سندھ ،سرحد ،بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر ،گلگت بلتستان اس کا انتظام ایک چیلنج تھا ایک ہزار میل کا فاصلہ اور درمیان میں ایک ایسا ملک جس نے پاکستان کے قیام کو آج تک اپنی شکست سمجھا ہے، ہم نے اس ذمہ داری کو قبول تو کیا لیکن اس کی بقا کیلئےمعیشت میں، تعلیم میں، انتظام میں جو راستے اختیار کیے جانے چاہئیں تھے وہ رفتہ رفتہ ترک کرتے گئے۔

16دسمبر 1971کے عظیم سانحہ کی بھی ذمہ دار 14 اگست نہیں ہے نہ ہی پاکستان۔ اس وقت کے جو بھی حکمراں تھے سیاسی اور فوجی فیصلے وہی کر رہے تھے ۔ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھ نہیں پائے اگر ان میں سے واقعی کچھ طاقتیں مشرقی پاکستان کو، اس کے جمہوریت پسند عوام کو، اس کے غیرجاگیردارانہ معاشرے کو اپنی حکمرانی میں رکاوٹ سمجھتے تھے تو اس کا متبادل آئینی انتظام ہو سکتا تھا ۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ آپ محض اپنی طاقت اور اسلحے کے زور پر ایک آزاد ملک نہیں چلا سکتے کنفیڈریشن بن سکتی تھی جسکی طرف آج ہم قدم بڑھا رہے ہیں۔

ایک جمہوری معاشرہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر چلتا ہے وہاں پیریٹی کے فارمولے نہیں چلتے ۔اس پیرٹی نے ہی اکثریتی صوبے کے الگ ہونے کی بنیاد رکھی ۔پھر 1971ءکے بعد سے بھی ہم ایک ایسے ہی اکثریتی صوبے سے توازن خراب کر رہے ہیں جو ملک کا 62 فیصد ہے۔ 1970ءکے انتخابات میں جنہیں عوامی لیگ کی اکثریت یکطرفہ لگتی تھی وہ پوزیشن تو اب بھی ہے۔چھوٹے صوبے اسی لیے شکوئوں میں مصروف رہتے ہیں ۔اس کا بھی کوئی حل تلاش کرنا چاہئے۔اپنے ماضی کو کوئی نہیں بدل سکتا لیکن مستقبل ہم بنا سکتے ہیں ۔جو پاکستان 14 اگست 1947ءکو وجود میں آیا ۔وہ اس خطے کیلئے صرف جغرافیائی طور پر نیاانتظام تھا ورنہ مختلف قومیں یہاں صدیوں سے آباد تھیں ۔ان سب کی اپنی اپنی ثقافت ہے۔ علم و فضل ہے تہذیب و تمدن ہے شاعری ہے عشق ہے۔ ایک دوسرے کا احترام ہے۔شاہ لطیف ہوں،شہباز قلندر، داتا گنج بخش، بابا فرید، خواجہ فرید ،میاں محمد ،بخش بلھےشاہ، رحمان بابا اور بے شمار درگاہیں جنکے مریدین صرف ایک صوبے میں نہیں ہر صوبے میں ہیں۔ یہ جو اب پاکستان ہے یہ پہلے سے ہی ایک روحانی ادبی ثقافتی علمی وحدت رہا ہے بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات کی تحقیق اور توثیق کی روشنی میں اسے ایک مثالی معاشی وحدت بھی قرار دیتے ہیں۔ بلوچستان، سندھ ،کے پی کے، پنجاب ،جنوبی پنجاب، آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان سب کی معیشتیں اور قسمتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں ۔سندھ بلوچستان کا سمندر باقی سب صوبوں کیلئے بھی معاشی خوشحالی فراہم کرتا ہے۔ بلوچستان کی سوئی گیس نے پورے پاکستان کے چولہے گرم کیے ۔خیبر پختون خوا نےسرحد پارسے آنے والی دہشت گردی کو اپنے اوپر سہا۔ دوسرے صوبوں کو بچایا۔ پاکستان کا محل وقوع سب کیلئے بہت اہم ہے اب جن معدنی وسائل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی توقع کر رہے ہیں ۔یہ گزشتہ 78 سال کے دوران کسی وقت بھی ہو سکتی تھی ۔1985 سے تو پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون باریاں لے رہی ہیں۔ انہوں نے بلوچستان، سرحد، پنجاب، جنوبی پنجاب سے، سندھ سے معدنی ذخائر دریافت کر کے کیوں سرمایہ کاری نہیں کی ۔پاکستان کے محل وقوع کے علاوہ دوسری بڑی نعمت 60 فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی ہے جو ہر صوبے میں ہے ۔انکی توانائی اور ذہنی صلاحیتوں سے اگر فائدہ نہیں اٹھایا گیا نوجوان طاقت لسانی نسلی انتہا پسند قوتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہوتی رہی تو اس میں 14 اگست اور پاکستان کا کیا قصور ہے ۔کسی بھی صوبے کا نوجوان ہو اس میں بہت صلاحیتیں ہیں ۔وہ کسی دوسرے ملک میں جا کر اپنی کوشش اور محنت سے اگر کسی بھی شعبے میں نام بناتا ہے تو اس کی پہچان پاکستان کا سبز پاسپورٹ ہی ہوتا ہے ۔اسی لیے میری التجا یہی ہے کہ ہم سب کہیں بھی آباد ہوں کہیں کا ڈومیسائل ہو کسی بھی صوبے میں کوئی بھی زبان بولتے ہوں کسی مسلک یا کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں پاکستان پر آپ کا حق ہے، 14 اگست آپ سب کا دن ہے بلوچستان میں رہنے والے بھی اس ریاست کے مالک ہیں گلگت میں رہنے والے بھی۔ آزاد جموں کشمیر میں سندھ کے پی کے سب کے نوجوانوں کا پاکستان پر حق ہے۔ 14 اگست نے یا پاکستان نے کسی کو غیر نہیں سمجھا کسی نوجوان کو لا پتہ نہیں کیا ۔پاکستان نے اپنی آغوش سب کو پیش کی ہے اس لیے 14 اگست سب کو منانی چاہیے اپنے اپنے انداز میں اور پاکستان سب کو اپنی زمین اپنی دھرتی اپنی ملکیت سمجھنی چاہیے۔ہمارے سانحوں المیوں ناانصافیوں ہلاکتوں اور زوال کی ذمہ داری 14 اگست اور پاکستان پر نہیں بلکہ اس مٹھی بھر اشرافیہ پر ہے جو پاکستان کے قدرتی وسائل اختیارات کے سرچشموں پر قبضہ کیے ہوئے ہے جو 25 کروڑ کی قسمت کے فیصلے کر رہی ہے۔ جاگیردارانہ معاشرت سرداری نظام یہ وفاق اور جمہوریت کو چلنے نہیں دے رہے، مضبوط مرکز کی خواہش نے اکثریتی صوبے کو الگ ہونے پر مجبور کیا اور اب بھی سب کے ساتھ نا انصافی اور معیشت کی کمزوری مضبوط مرکز کی تمنا کے سبب ہی ہے لیکن واہگہ سے گوادر تک ہم سب کو اسی وفاق میں رہتے ہوئے اس کو خود کفیل اور خود مختار بنانا ہے اور ہر پاکستانی کو خود دار اور یہ ایک دوسرے کے احترام سے اور حقوق کی پاسداری سے ہی ممکن ہے۔

تازہ ترین