آزادی کی ہر تحریک کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، نعرے مختلف ہو سکتے ہیں مگر روح ایک ہی ہوتی ہے۔
ریاستیں رنگ، نسل، زبان، جغرافیائی وحدت اور نظریے جیسی بنیادوں پر تشکیل پاتی ہیں، لیکن انکے عقب میں ایک ہی خواہش کار فرما ہوا کرتی ہے، یہ خواہش ہے مساوات کی، برابری کی، بہتری کی، تحفظ کی اور اپنے وسائل پر قدرت کی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اپنے فیصلے اپنے ہاتھ میں لئے جائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی خطے میں بسنے والے عوام نے جب بھی کسی تحریکِ آزادی میں حصہ لیا انکے پیشِ نظر یہی مقاصد رہے، انہوں نے یہی خواب دیکھا، اسی خواب کی تعبیر مانگی۔ شخصی و گروہی مفادات کے قضیے ایک علیحدہ بحث ہے، مگر عوام الناس کا یہی معاملہ رہا ہے۔ کیا پاکستان تاریخِ عالم سے ہٹ کر کوئی پرندہ ہے؟ غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں آج 78سال بعد بھی یہ بحث زور شور سے جاری ہے کہ پاکستان کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا؟ خلطِ مبحث کی اس سے موثر مثال محال ہے۔ پاکستان مذہب کے نام پر بنا تھا یا جمہوریت کے، اسکا منشور قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر تھی یا قراردادِ مقاصد، مضبوط مرکز کیلئے وجود میں آیا تھا یا قومیتوںکیلئے، اردو زبان کے تحفظ کیلئے تشکیل پایا تھا یا اس خطے کی سب زبانوں کے فروغ کیلئے...یہ سب سوال اہم ہیں، مگر ایک حقیقت ان سب سوالوں سے بڑی ہے، اور وہ حقیقت ہے اس خطے کے باشندے، اس ریاست میں بسنے والے کروڑوں لوگ، انسان، افتادگانِ خاک۔ اپنے’’ارفع‘‘ مقاصد کیلئے پھیلائی گئی اس فکری سموگ کو ہٹا کر دیکھیں تو پس منظر میں کروڑوں لوگ حیران کھڑے ہیں، مضمحل اور نڈھال لوگ، جنہیں جھانسا دیا گیا تھا کہ یہ خطۂ زمین تمہارا ہے، اب اپنے فیصلے تم خود کرو گے، اب اپنے وسائل کے مالک تم ہو، تم برابر کے شہری ہو، غلامی کا دور لد گیا، آزادی کا مطلب ہو گا تعلیم ، صحت اور تحفظ، آزادی کا مطلب ہو گا انصاف، مساوات اور بھائی چارہ۔ دوسرے لفظوں میں نئی ریاست کو دل کہا گیا اور عوام کو معشوق، یعنی اب اس دل پر تمہارا ہی راج ہو گا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہر ریاست اسی لئے وجود میں آتی ہے، اسکے سوا تمام بحثیں کج اور فروعی نظر آتی ہیں’’ون سونے‘‘ نعرے اپنی جگہ لیکن اگر انکی بنیاد عوام کی فلاح اور بہتر معیارِ زندگی نہیں ہے تو وہ فکری ژولیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سال ہا سال سے ریاستِ پاکستان رنگ برنگے نعروں سے گونج رہی ہے، اور جب کسی نعرے کی گرد بیٹھتی ہے تو پس منظر سے دھول میں اٹے ہوئے کروڑوں مایوس چہرے برآمد ہوتے ہیں۔ ریاست کا مرکزی کردار شہری ہوا کرتا ہے۔ کیا پاکستان کی کہانی کا مرکزی کردار شہری ہے؟ یا شہری فقط ایک مہمان اداکار ہے؟ کاغذوں میں تو شہری طاقت کا سر چشمہ ہے، ہر سِتم اسی کے نام پر روا رکھا جاتا ہے، لیکن روزِ اول سے اس سے وعدہ خلافی کی گئی، اسے نظر انداز کیا گیا، بلکہ صاف صاف کہیے کہ اسکی تو ہین کی گئی۔ شہری سے سب سے پہلا وعدہ تو یہ کیا گیا تھا کہ آج سے تم اپنے وسائل کے مالک خود ہو، خود طے کرو کہ انہیں کس طرح برتنا ہے، تمہاری رائے اس معاملے میں فیصلہ کُن ہو گی، اختیار تمہاری امانت ہے، اپنے نمائندے چنو، اور جو نمائندہ امانت میں خیانت کرے اسے معزول کر دو۔ جن کاغذوں پر یہ نقشہ بنایا گیا تھا وہ کدھر گئے؟ سچ تو یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کی حقیقی تاریخ عوام کی بے اختیاری کی داستان ہے، ان 78 برسوں میں کبھی انکے ہاتھ میں باگ پکڑائی ہی نہیں گئی، کبھی انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ یہ خود اپنی سمت کا فیصلہ کر سکیں، اور آج بھی انکے بارے میں طاقتوروں کی یہی رائے ہے کہ عوام کے ہاتھوں میں بجلی اور گیس کے بل ہی اچھے لگتے ہیں، رخشِ وطن کی باگیں نہیں۔ عام پاکستانی پر بد اعتمادی کا یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کیساتھ ہی آغاز کر دیا گیاتھا۔ عوام کو فیصلہ سازی سے باہر رکھنا ہے، کیوں کہ اگر عوام کو یہ حق مل گیا تو انکا سب سے پہلا فیصلہ طاقتوروں کیخلاف ہو گا جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے وسائل ہڑپ کر رکھے ہیں۔ بس یہی سادہ سا ایجنڈا 1947ءمیں طے کیا گیا، وہ دن اور آج کا دن، اس ملک کی تنومند اشرافیہ نے عام پاکستانی کو فیصلہ سازی کی میز پر بیٹھنے ہی نہیں دیا۔ حالتِ امن ہو یا حالتِ جنگ، پاکستان کی تاریخ کا کون سا بڑا فیصلہ ہے جو پاکستان کے عوام نے کیا؟ تاریخی حوالوں کو چھوڑیے، ابھی حال ہی میں ٹرمپ صاحب نے پاکستان کیساتھ معدنی وسائل کی دریافت کے حوالے سے ایک معاہدے کا اعلان کیا ، جو پارلے مان کیلئے بھی ایک خبر ہے اور عوام کیلئے بھی۔ حتیٰ کہ وہ فیصلہ جو براہ راست عوام کرتے ہیں، یعنی اپنے نمائندے چننے کا فیصلہ، وہ بھی کیا تسلیم کیا جاتا ہے؟ کیا ملکی تاریخ میں کسی ایک غیر متنازع انتخابات کی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ پہلے پاور شیئرنگ کی بات ہوتی ہے، پھر وہ بھی گراں گزرنے لگتی ہے۔ آج کل پھر یار لوگ اسلام آباد میں بڑی تبدیلیوں پر غور فرما رہے ہیں۔ ہم 71ء کی جنگ ہارے تھے اور ملک میں جمہوریت آئی تھی، ہم مئی کی جنگ جیتے ہیں، دیکھیں اسکا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟پاکستان کوئی عجیب الخلقت بچھڑا نہیں ہے، پاکستان ایک ریاست ہے جو ہر ریاست کی طرح اپنے عوام کی فلاح کیلئے وجود میں آئی تھی۔ آئیں تجدیدِ عہد کریں اور مل کر نعرہ لگائیں...’’سب سے پہلے پاکستانی۔‘‘