مخدومِ اُمت الشیخ علی بن عثمان فیض عالم، اہل تصوف کی اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو بذریعہ توحید و سنت نبویؐ، اللّٰہ کی رضا کے متلاشی رہتے ہیں۔ نیز اپنے وسائل، مرتبہ اور علم کو خلق خدا کی خدمت اور تربیت کے لئے وقف کر دیتے ہیں تاکہ مخلوق بھی اللّٰہ کی محبت کے راستوں پر گامزن ہو جائے۔ تاریخ شاہدہے کہ بڑے بڑے زورآور حکمرانوں کی تلواریں اور ان کا رعب و دبدبہ جو کام نہ کر سکا، وہ اولیاء اللّٰہ نے اپنے اعلیٰ سیرت و کردار، علم و عرفان، اپنے بیگانے سے محبت کے اعجاز سے سرانجام دے دیا۔ بے شک حضرت علی ہجویریؒ بھی انہیں اولیائے کرام میں شامل بلکہ ان کے سرخیل ہیں۔ آپ نے اسلام کی سربلندی کا پرچم اس وقت بلند کیا، جب پورا ہند کفر و الحاد، شرکت و بدعات میں ڈوبا ہوا تھا۔ طاقتور راجوں، مہاراجوں و ظالم اشرافیہ نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا اور مظلوم عوام کا کوئی غمگسار موجود نہ تھا۔ ان حالات میں ولی کامل نے اپنے زہد و تقویٰ، اخلاقِ حسنہ، کشف و کرامات اور پسماندہ طبقات کی دلگیری اور خدمت کے ذریعے رشد و ہدایت اور محبت کی ابدی شمع روشن کی۔ آپ کی شخصیت و کردار کے اثرات کی جھلک سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی عیاں ہے کہ آپ کا مزار اقدس صبح و شام مرجع خلائق رہتا ہے۔ جہاں عبادت و ریاضت کی محفلوں کے دوران آپ کی تعلیمات اور خدمات کی ستائش بھی کی جاتی ہے۔
آپؒ کا اصلی نام علی، کنیت ابوالحسن، لقب داتا گنج بخشؒ اور آپ کے والد محترم کا نام عثمان بن علی رحمتہ اللّٰہ علیہ تھا۔ آپکی ولادت 400ہجری / 1010عیسوی بیان کی جاتی ہے۔ آپ افغانستان کے شہر غزنی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا تعلق حسنی اور والدہ ماجدہ کا تعلق حسینی سلسلہ سے ہے۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں کشف المحجوب سب سے زیادہ معروف ہے۔ کشف المحجوب کے بارے میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں: یہ ایسی کتاب ہے کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو، اس کتاب کے مطالعہ کی برکت سے فیض یاب ہو جائے گا۔ عوام الناس کے استفادہ کے لئے فرموداتِ علی ہجویریؒ پیش خدمت ہیں:
’’فقیر کے لئے لازم ہے کہ بادشاہوں یا حاکموں سے میل جول کو سانپ کی ہم نشینی خیال کرے۔ اگر فقیر اس نیت سے فقیرانہ لباس پہنتا ہے کہ دولت مند کی ہم نشینی حاصل ہو جائے تو یقین جانو کہ وہ فقیر نہیں، آتش پرست ہے۔ جب بھی تو دیکھے تو اللّٰہ تعالیٰ کی کاریگری کو پیش نظر رکھ، جس کام میں غرضِ نفسانی ہوتی ہے اس سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ فقیر وہ ہے جو اشیاء کو حقیقی ملکیت نہ سمجھے، تب نہ کسی کے جانے سے اس کا نقصان ہو، نہ اسباب دنیوی کے موجود ہونے سے خود کو غنی سمجھے‘‘۔پورے برصغیر میں توحیدالٰہی، تعلیمات نبوی اور علم و عرفان کی روشنی بکھیرتے ہوئے یہ آفتابِ معرفت 1072ء کو حجاباتِ ارواح میں چلا گیا۔ آپ کے وصال کے بعد حضرت شیخ ہندیؒ نے آپ کا مزار مبارک تعمیر کروایا، جبکہ مغلیہ فرماں روا جلال الدین محمد اکبر کے عہد میں آپ کے مزار کے چبوترہ کو ہشت پہلو مقبرہ کی صورت دی گئی اور اس سے ملحقہ دالان بھی تعمیر ہوئے۔ جہاں زائرین کے لئے تعلیمات اور قیام کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ 1278ء میں نورمحمد سادھو نے پختہ گنبد تعمیر کروایا جس پر بعدازاں مولوی فیروز دین مرحوم نے مزار کے اردگرد سنگ مرمر کی جالیاں لگوائیں جن پر عبدالمجید پروین رقم نے اشعار کی خطاطی کی۔ اسی طرح بیگم سید مراتب علی نے بھی ایک دروازہ شمال کی طرف تعمیر کروایا جو خواتین کے لئے مخصوص تھا۔ امیرالنساء بیگم نے 1944ء میں مزارِ مبارک کے چاروں جانب غلام گردش تعمیر کروائی جو آج بھی موجود ہے اور اس پر مرحوم تاج الدین زریں رقم نے اشعار و کلام معرفت تحریر کئے۔مسجد و دربار کے جدید توسیعی منصوبہ کی بنیاد صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے 28جنوری 1978ء کو رکھی۔ نئی مسجد ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع فٹ اراضی پر محیط ہے جس میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ پرانی مسجد کی اس تعمیرنو کے بعد ایک توسیعی منصوبہ تیار کیا گیا جسکے تحت دو سو کاروں کی زیرزمین گنجائش اور ایک لاکھ مربع فٹ پر محیط کار پارکنگ، سماع ہال، لنگرخانہ برائے مرد و خواتین، وضوگاہ، بنک، پولیس اسٹیشن، ڈاکخانہ اور اوقاف کے دفاتر، ان تعمیرات اور سہولیات کے اُوپر گرائونڈ فلور پر فوارہ جات کے جلو میں نمازیوں کیلئے صحن کو مزید گنجائش دی گئی اور یوں مسجد کو یہاں تک توسیع حاصل ہو گئی ہے۔عظیم الشان توسیعی منصوبہ حقیقتاً فن تعمیر کا جدید شاہکار اور سنگ میل ہے۔ جو وفاقی وزیر چیئرمین جناب محمد اسحق ڈار اور صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مرحوم کی دلچسپی سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ اس منصوبے کا افتتاح جون 1999ء کو اس وقت کے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف نے دربار شریف پر منعقدہ ایک شاندار تقریب میں کیا۔ حسن اتفاق کہ ہم بھی اس تقریب میں بطور ممبر اُمور مذہبیہ کمیٹی اور ممبر تعمیراتی کمیٹی موجود تھے۔ اس تقریب کے دوران حاضرین نے داد و تحسین سے نعرے بلند کئے۔ جب وزیراعظم نے اس موقع پر تعلیماتِ گنج بخش کے فروغ کے لئے لاہور میں ایک یونیورسٹی کے اجرا کا مژدۂ جانفزاء سنایا۔ اس اعلان کو تقریباً 27سال بیت چکے ہیں لیکن ہنوز اس وعدہ یونیورسٹی کو ایفانہ کیا جا سکے۔ بھلا ہو ہمارے ملک کے سیاسی مد و جزر کا کہ بعض اوقات اس کے متاثرین اور کھلاڑیوں کے ذہن سے عوامی وعدے محو ہو جاتے ہیں۔ اس دیرینہ وعدہ کی یادآوری اور بازگشت کی وجہ سے شاید اس اعلان کے ایفاکی کوئی راہ نکل آئے۔