پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں طویل سردمہری کے بعد پچھلے چند ماہ کے دوران تیزی سے بہتری کے مظاہر سامنے آرہے ہیں۔ باہمی روابط میں یہ مثبت تبدیلی مئی میں ہونے والی چار روزہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے رونما ہوئی ہے جس میںپاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی دانشمندانہ حکمت عملی اور افواج پاکستان کی بے مثال اور شاندار کارکردگی نے عالمی منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ ماہ واشنگٹن اور اسلام آباد میں ایک تجارتی معاہدے کے بعد، جسے پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری اور امریکہ کو پاکستانی برآمدات میں نمایاں اضافے کے امکانات کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے، گزشتہ روز پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پرامریکی وزیر خارجہ مارکو روبیونے ایک بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن اہم معدنیات اور ہائیڈروکاربن کے شعبے میں پاکستان کیساتھ تعاون کے امکانات تلاش کرنے کا منتظر ہے۔واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش میںامریکہ کی بھرپور شرکت کا اعلان پہلے ہی کرچکے ہیں۔پاکستان کے وزیر تجارت جام کمال کے مطابق اسلام آباد امریکی کاروباری اداروں کو بالخصوص بلوچستان میں کان کنی کے منصوبوں میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کے ذریعے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا۔ ان منصوبوں میں امریکی سرمایہ کاروں کو لیز گرانٹس جیسی رعایتیں دی جائیں گی۔بلوچستان کئی اہم کان کنی منصوبوں کا مرکز ہے جن میں ریکو ڈک کا منصوبہ بھی شامل ہے اور جسے دنیا کی سب سے بڑی سونے اور تانبے کی کانوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ باہمی تجارت کے فروغ اور معدنی وسائل کی تلاش میں شرکت کیساتھ ساتھ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کی جدوجہد میں بھرپور تعاون کا بھی آغاز ہوگیا ہے اور اس کا عملی مظہر بھارت کی حمایت یافتہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو امریکہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد تنظیموں میں شامل کیے جانے کا اعلان ہے۔ یہ اقدام بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق مارکو روبیو نے بدھ کی شب کہا کہ ہم پاکستان کیساتھ اقتصادی تعاون کے نئے شعبوں، خصوصاً اہم معدنیات اور ہائیڈروکاربن میں امکانات تلاش کرنے اور متحرک کاروباری شراکت داریوں کو فروغ دینے کے منتظر ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ انسداد دہشت گردی اور تجارت کے حوالے سے پاکستان کی شمولیت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں برابری کی بنیاد پر شروع ہونیوالا سرگرم تعلقات کا یہ نیا دور یقینی طور پر پاکستان کی حیرت انگیز دفاعی صلاحیت کے مظاہرے اور اعلیٰ درجے کی سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں خاصا تناؤ نظر آتا تھا کیونکہ امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت کیساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی حکمت عملی اپنا رکھی تھی۔ افغانستان کے حوالے سے بھی واشنگٹن، اسلام آباد سے نالاں رہا۔ تاہم مئی کی پاک بھارت جنگ نے صورت حال کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور پاکستان جنوبی ایشیا کی اہم ترین طاقت کے طور پر ابھرا۔ اسکے بعد ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کے کردار نے اسکی اہمیت میں مزید اضافہ کیا۔ پاکستان دفاع کیساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی نہایت کامیاب پیش رفت کررہا ہے۔ اسکے نتیجے میں چین کی سدابہار دوستی کے ساتھ ساتھ امریکہ سے بھی باہمی مفادات کے مطابق تعلقات میں تیزی سے عملی بہتری رونما ہوئی ہے جسکے باعث آئندہ چند برسوں میں پاکستان کی عالمی اہمیت اور ترقی و خوشحالی میں نمایاں اضافے کے امکانات نہایت روشن ہوگئے ہیں۔