بھارت کی عسکری قیادت نے ایک بار پھر جھوٹ اور مبالغے کا سہارا لے کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ائیر چیف مارشل اے پی سنگھ کا 3ماہ بعد یہ دعویٰ کہ بھارت نے 5پاکستانی لڑاکا اور ایک نگرانی طیارہ مار گرایا،حقیقت سے زیادہ ایک سیاسی مذاق لگتا ہے ۔ایسے بیانات سن کر عالمی برادری حیران نہیں ہوتی بلکہ مسکراتی ہے کیونکہ یہ وہی بھارت ہے جو پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد جھوٹے دعوئوں کی نمائش کر کے اپنی سبکی کا سامان کرچکا ہے۔خواجہ آصف نے درست کہا کہ ہمارا کوئی طیارہ نہیں گرا اور اس کی تصدیق آزاد ذرائع سے کرائی جاسکتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے جنگ میں نہ صرف 6بھارتی طیارے گرائے بلکہ S-400دفاعی نظام ،ڈرونز اور کئی فضائی اڈے بھی تباہ کئے۔یہ اعداد وشمار محض بیان بازی نہیں بلکہ میدان جنگ کے حقائق ہیں ۔اس جھوٹ کی سب سے کاری ضرب بھارتی اپوزیشن کانگریس نے لگائی جو خود سوال اٹھارہی ہے کہ اگر بھارت اتنی عظیم کامیابی حاصل کر چکا تھا تو مودی نے 10مئی کو آپریشن اچانک کیوں روک دیا ؟یہ سوال ائیر چیف کے دعوے کو کھوکھلا اور بے معنی ثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ بھارتی عسکری قیادت کا یہ طرز عمل سیاسی بیانیہ بنانے کی اناڑی مشق ہے جنگی حکمت عملی نہیں ۔دنیا کے جدید میڈیا کے دور میں جھوٹے دعوے زیادہ دیر چھپ نہیں سکتے اور جب ہر بار بھارت کا بیانیہ بے نقاب ہوتا ہے تو اس کی ساکھ ریت کی دیوار کی طرح گرجاتی ہے ۔عسکری میدان میں ناکامی کے ساتھ بھارت کی سفارتکاری کا حال بھی عبرتناک ہے ۔مودی نے دنیا کی دوسپر پاورزامریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز بنایا لیکن چین کے ساتھ دوستی کی نمائش کا انجام سرحدی جھڑپوں،چینی جارحیت اور ہمالیہ کی چوٹیوں پر ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی پر ہوا۔امریکا میں مودی کی ٹرمپ سے قربت کاچرچا تھا لیکن جیسے ہی مفادات کا تصادم ہوا،ٹرمپ نے بھارت پر 50فیصد ٹیرف لگادیا،معیشت کو مردہ قرار دے دیا اور پاکستان کو بھارت کے برابر لاکھڑا کیا ۔اب مودی حکومت چین سے تعلقات کی بحالی کی کوشش کر رہی ہے لیکن بیجنگ کی پاکستان کو فوجی حمایت اور سرحدی تنازعات ایک مستقل رکاوٹ ہیں ۔روس کے ساتھ قربت بڑھانے کی کوشش بھی اسی بے سمتی کی نشانی ہے ۔یہ وہی دہلی ہے جو کل تک خود کو مغرب کا قریبی اتحادی قرار دیتاتھا اور آج پھر اسٹرٹیجک خود مختار ی کی دہائی دے رہا ہے مگر بدلتی دنیا میں یہ پرانا نسخہ اب زیادہ کارگر نہیں ۔بھارتی حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عسکری اور سفارتی ناکامیوں کا ملبہ ہمیشہ پروپیگنڈا اور جھوٹ پر ڈالتی ہے ۔ائیر چیف کے حالیہ بیان نے مودی حکومت کو فائدہ دینے کے بجائے اپوزیشن کو نیا ہتھیار فراہم کردیا ہے ۔جب جھوٹ بار بار بے نقاب ہو تو دنیا آپ کے بیانات سنجیدگی سے نہیں لیتی۔یہی وجہ ہے کہ بھارت آج عالمی سطح پر اعتماد کھو چکا ہے اور اگر کل کسی سچائی کو بیان بھی کرے تو اس پر شک کیا جائیگا۔اس کے برعکس پاکستان نے جنگی محاذ پر پیشہ ورانہ مہارت دکھائی اور آرمینیا اور آذر بائیجان کے تاریخی امن معاہدے کی کھلے دل سے پذیرائی اور امن کی حمایت کر کے سفارتی محاذپر عزت کمائی ۔شی جن پنگ ،ٹرمپ سے ناکام تعلق کے بعد خود احتسابی صورتحال نے مودی کو سوچ میں ڈال دیاہے۔
دوسری جانب غزہ پر مکمل قبضے کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے جرمنی نے اسرائیل کو غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ جرمن چانسلر نے کہا کہ جرمن حکومت اگلے نوٹس تک غزہ کی پٹی میں استعمال ہونے والے فوجی ساز و سامان کی برآمد کی اجازت نہیں دے گی۔ دوسری جانب اسرائیلی منصوبے کی دنیا بھر سے شدید مذمت بھی سامنے آرہی ہے۔ ڈنمارک نے اسرائیل سے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کا غزہ پر قبضہ اور فوجی کارروائیاں بڑھانے کا فیصلہ غلط ہے۔ سعودی عرب نے بھی غزہ پر قبضے کی اسرائیلی کوشش کی مذمت کی جبکہ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری روکنے کا مطالبہ کیا۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے اسرائیل سے فیصلے پر فوری نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ اقدام سے غزہ میں خونریزی بڑھے گی۔ ترکیہ نے بھی عالمی برادری سے اسرائیلی منصوبہ روکنے کیلئے دبائو ڈالنے کا مطالبہ کیا جبکہ آسٹریلیا نے اسرائیل کو غزہ پر فوجی قبضے سے باز رہنے کی تاکیدکی۔اسی طرح وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ اسرائیلی کابینہ کا منصوبہ فلسطینیوں کیخلاف جنگ میں خطرناک اضافے کے مترادف ہے۔ اسرائیلی جارحیت کیخلاف اب پوری دنیا کی طرف سے مظاہرے اور احتجاج کرکے دبائو ڈالا جا رہا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تمام تر دبائو کے باوجود امریکی شہ پر اسرائیلی شرانگیزیاں جاری ہیں جبکہ اقوام متحدہ جیسا بااختیار ادارہ بھی امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے۔ امریکی صدر تو کھل کر اسرائیل کیساتھ کھڑے ہیں اور اسکی اسلحہ بارود سمیت ہر قسم کی معاونت کر رہے ہیں تو ایسے میں عالمی امن کی کس طرح ضمانت مل سکتی ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا جرأت مندانہ اقدام قابل ستائش ہے جس نے فی الوقت اسرائیل کو اسلحہ کی ترسیل روک دی ہے۔ جرمنی کے اس اقدام سے مسلم دنیا کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جس کی حمیت اسرائیل کے بدترین انسانی قتل پر بھی جوش نہیں مارتی۔