17 اگست 1988 کا دن ‘ اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے حامیوں اور اس ملک کو اقوام عالم کا سردار ملک بنانے والے معمار صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا دن ہے‘ جنہوں نے افغان جہاد کی کامیابی کے بعد کشمیر کی آزادی کا عزم باندھ لیا تھا‘ لیکن پاکستان کو دنیا کا سردار ملک بننے سے روکنے والی قوتوں نے ایک منظم ،گہری سازش اور اپنے سہولت کاروں کے ذریعے پاکستان کی آگے بڑھنے کی تحریک اور ہم سے صدر جنرل محمد ضیاء الحق بھی چھین لیے۔آج صدر جنرل محمد ضیاء الحق جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں تاہم وطن عزیز کو خانہ جنگی سے بچانے‘ اسلامی نظام زندگی کے عملی نفاذ کی کوشش کرنے والے‘ افغانستان میں جارحیت کے بعد پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے والے روس کو دریائے آمو کے پار دھکیلنے والے‘ راجیو کے ماتھے کو خوف کے پسینے میں ڈبو دینے والے صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کا نام زندہ جاوید ہے‘ افغانستان سے روس کی واپسی ان کا بہت بڑا کارنامہ ہےَ‘ وہ جنیوا معاہدے کے خلاف تھے کیونکہ یہ معاہدہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی اور کابل پر روس کی حکمرانی قائم رکھنے والا معاہدہ تھا‘ وہ چاہتے تھے کہ روس کی واپسی سے پہلے افغانستان میں نئی افغان حکومت قائم ہوجائے‘ وہ چونکہ ایسا مطالبہ کرنے والے تنہا آواز تھے اس لیے وہ پاکستان دشمن قوتوں کے مقامی سہولت کاروں کے باعث طیارے کے حادثے کا شکار ہوگئے‘ ان کے طیارے کے حادثے پر بھارت سمیت پاکستان کے ہر دشمن ملک میں جشن کا سماں تھا کیونکہ جنرل محمد ضیاء الحق ان سب کے خوفناک حریف تھے۔
1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے اس وقت کے حکمراں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تو اسکے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوگیاجنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے مارشل لا کا والہانہ استقبال کیا۔ ملک میں ان کے ناقد بھی بہت ہیں اورحامی بھی ‘ حامیوں کی تعداد ناقدین سےکہیں زیادہ ہے۔ہم شہید کے خاندان کے فرد ہونے کے ناتے کسی سے اسکی رائے کاحق نہیں چھین رہے ‘ لیکن ان کے حق میں تاریخ کی گواہی بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے‘ اگر ملک میں سیاسی حالات کاتجزیہ کرنا ہے‘ خرابیوں کی نشان دہی کرنی ہے تو پھر اسکندر مرزا سے بات شروع کی جائے کہ وہ اس ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے موجد تھے اور وہ کیسے اس ملک کے صدر بنے؟ اگر تجزیہ کرنا ہے تو پھر حقائق سامنے رکھ کر کیا جائے‘ جنرل محمد ضیاء الحق نے ملکی سلامتی کی جو قسم کھائی تھی اس کی پاسداری کی‘1977 ءمیں جب انہیں اقتدار سنبھالنا پڑا‘ پاکستان قومی اتحاد کے راہنما انہیں کئی خط لکھ چکے تھے‘ ملک کے حالات اس قدر خراب تھے کہ تقریباً سول نافرمانی کی صورت حال تھی‘ خود بھٹو صاحب کے کہنے پر لاہور‘ حیدر آباد اور کراچی میں کرفیو لگایا گیا‘ لیکن جب جنرل محمد ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو ان کے پاس مکمل اختیار تھا‘ انہوں نے آتے ہی اسیربلوچ راہنماؤں کو رہا کیا‘ ملک میں کاروبار زندگی بحال کیا‘ اسلامی نظام کی عملی کوشش کی‘ نظام صلوۃ قائم کیا‘ زکوۃ اور عشر کا نظام نافذ کیا‘ غریب مستحق شہریوں کیلئے بیت المال کی بنیاد رکھی‘شہید صدر نے بطور عاشق رسولﷺ‘ تحفظ ختم نبوت ﷺ کے محافظ بن کر متنازع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے1950 میںگائیڈ کیولری میں شمولیت اختیار کی دس سال تک اسی یونٹ میں رہے‘1955 کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی‘ اسی کالج میں انسٹرکٹر بھی رہے‘ انہوں نے رسالہ کی ایک کور‘ ایک آرمڈ بریگیڈ‘ ایک آرمز ڈویژن‘ اور ایک کور کی کمانڈ کی‘ جنرل محمد ضیاء الحق‘ سابق آرمی چیف جنرل گل حسن کے اسٹاف آفیسر بھی رہے‘52 سال کی عمر میں ملک کے آرمی چیف مقرر ہوئے۔ مجھے جنرل محمد ضیاء الحق کو بطور والد اور بطور حکمران دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ وہ ایک کشادہ ظرف انسان تھے انکی ذاتی زندگی کبھی کسی قسم کے ہزیمت اور پشیمانی والے کام میں ملوث نہیں رہی تبلیغ اسلام ان کے ایمان کا حصہ تھا اور ان کی آرزو تھی کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے۔وہ آزاد خیالی اور لبرل ازم‘ مادر پدر آزادی کو مغربی معاشرے کے اثرات سے ملک کو بچانا چاہتے تھے انہیں یقین تھا کہ مسلم ممالک صرف اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ وہ ہر لحاظ سے ایک طاقت ور حکمران رہے مگرکوئی انکے دامن پر کسی قسم کی کرپشن کے داغ تلاش نہیں کرسکا‘1979 میں ملٹری کونسل نے انہیں نشان امتیاز (ملٹری) دینے کا فیصلہ کیا مگر انہوں نے یہ پیش کش قبول نہیں کی اور کہا کہ میری کاکردگی کے حسن و قبح کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیجیے‘ وہ پانچ جولائی1977ءسے 17اگست 1988ءتک ملک کے حکمران رہے‘17اگست ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا‘ اس روز ان کے طیارے کا حادثہ ہوا اور فوجی وردی میں وہ اس حادثے میں اللہ کے حضور پیش ہوگئے‘17اگست کو وہ معمول کے مطابق تیار ہوئے انکے طیارے نے صبح 8بجکر21منٹ پر چک لالہ ایئربیس سے پرواز کی اور 9بجکر27پر بہاولپوراتر گیا‘ روانگی سے قبل چک لالہ ائربیس پر طیارے کی مکمل دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کی گئی‘ امریکی ٹینک کا معائنہ کرنے کے بعد وہ تقریباً ساڑھے3بجے واپسی کیلئےطیارے میں سوار ہوئے‘ اسی اثناء میں آموں کے دو کریٹ اور ایک تحفے کا ڈبہ لایا گیا‘ جس میں طیاروں کے یا امریکی ٹینک کے ماڈل تھے، C-130 تین بجکر 46 پر زمین سے اڑا اور چند منٹوں میں جب ان کا طیارہ دریائے ستلج کے اوپر پہنچا تولڑکھڑاسا گیااورپھرسیدھا زمین پرآ گرا‘طیارےکو آگ لگ گئی‘ جائے حادثہ بہاول پور ہوائی اڈے سے تقریباً 9 کلو میٹر دور شمال مغرب کی جانب ہے‘ موسم بھی صاف تھا چنانچہ موسم کا حادثے سے کوئی تعلق نہیں تھا‘ حادثے کی تحقیقات کیلئے اس وقت ایئر کموڈور عباس کی سربراہی میں ایک بورڈ بنایا گیا‘ جسکی تحقیقات میں کہا گیا کہ طیارے کو باہر سے کسی نے نشانہ نہیں بنایا‘ جو کچھ بھی ہوا جہاز کے اندر ہی ہوا‘ جس طرح طیارے کے حادثے کی تحقیقات کیلئے جسٹس شفیع کمیشن بھی بنایا گیا تھا‘ یہ سب کچھ ایک واقعاتی کہانی کا ہی مواد ہے‘ ہم بطور لواحقین آج تک مطمئن نہیں ہوسکے کہ طیارہ کیوں‘ کیسے گرا‘ اور اس حادثے کے اصل محرکات کیا تھے‘ اگر یہ سازش تھی تو کہاں تیار ہوئی‘ کون اس میں ملوث تھا‘ کس نے کس کے کہنے پر منصوبہ بندی کی‘ بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے کا مقدمہ اب اللّٰہ کی عدالت میں ہے‘ انہوں نے اس ملک کیلئے‘ قوم کیلئے اور ملت اسلامیہ کیلئے جو کچھ کیا اب وہ سب تاریخ کا سنہرا باب ہے کہ انہوں نے قرارداد مقاصدکو آئین کا حصہ بنایا‘ ملک میں قانون کے مطابق جائز نجی کاروبارکیلئے ہر سرمایہ کار کی حوصلہ افزائی کی ‘ انہوں نے پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال کی تعلیمات کے مطابق چلایا اور اس ملک میں اسلام کے نفاذ کی عملی کوشش کی‘ بلاسود بینکاری نظام لائےاحترام رمضان المبارک قوانین بنائے گئے‘سرکاری دفاتر میں ظہر کی نماز کا اہتمام کیا جانے لگا‘جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کاگزشتہ روز 17 اگست کو37 واں یوم شہادت تھا۔ہم آج بھی ان حقائق کی تلاش میں ہیں جو جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے C-130 کے حادثے کا سبب بنے۔
صلۂ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
(صدر پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق شہید)