اُمت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھنے اور فتح مبین کا مژدہ جانفزا سنانے والے جنرل (ر)حمید گل سے میرا تعلق کئی برسوں پر محیط رہا۔یوں تو ان کے اوصاف حمیدہ کی فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے مگر میری دانست میں اس وضعدار شخص کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ دوستی کا دم بھرنیوالے ہر شخص کو عمر ،سماجی مقام و مرتبے اور حیثیت سے قطع نظر یہ گمان ہوتا کہ جنرل صاحب کیساتھ سب سے زیادہ قربت اسے حاصل ہے ۔جب کبھی بذریعہ ٹیلیفون رابطہ ہوا یا پھر ان کے گھر پر ملاقات ہوئی تو کبھی ناگواری کے تاثرات نہیں دیکھے ۔کئی بار باضابطہ انٹرویو کے دوران نہایت تلخ سوالات کے باوجود انکے ماتھے پر شکن دکھائی نہ دی ۔مگر ہم قلمی مزدوروں کو ذاتی تعلقات اور باہمی احترام کے باوجود حقائق کو درست تناظر میں پیش کرنا ہوتا ہے۔اسی پیشہ ورانہ دیانتداری کے تحت 10جولائی 2015ء کو انہی صفحات پر جنرل (ر)حمید گل کے بارے میں ایک تنقید ی کالم لکھاجس کا عنوان تھا’’جنرل صاحب کوئی نئی فلم چلائیں‘‘۔اس کالم میں بنیادی طور پر سوال اُٹھایا گیاکہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی تین بڑی ناکامیاں زندگی بھر انکا تعاقب کرتی رہیں گی۔سانحہ اوجڑی کیمپ،جلال آباد کی ناکام مہم جوئی اور17اگست 1988ء کو جنرل ضیاالحق کا طیارہ تباہ ہونا۔محولا بالا کالم کی نوبت یوں آئی کہ جب تحریک انصاف حکومت گرانے کی کوشش کر رہی تھی تو جنرل حمید گل نے بیان داغ دیا کہ آئین معطل کردیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا،وقت کا تقاضا ہے کہ فوج اقتدار سنبھال لے۔
بہر حال یہ کالم شائع ہونے پر جنرل صاحب نے ٹیلیفون کیا ،بات نہ ہوسکی تو مجھے ای میل بھیجی ،جواب موصول نہ ہوا تو لب و لہجہ ترش ہوگیا۔میں چاہتا ہوں ،آج دس سال بعد وہ ای میل اور اپنا جواب تاریخ کی عدالت میں پیش کروں ۔جنرل صاحب نے لکھا:
ڈیئربلال!کچھ بچے کبھی بڑے نہیں ہوتے لہٰذا وہی کہانی آپ کو دہرانی پڑتی ہے۔میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ ان میں سے ایک ہیں۔آپ تو ماشااللہ بہت قدآور شخصیت بن چکے ہیںبلکہ شاید کچھ زیادہ ہی بڑے ہوگئے ہیں۔اگر آپ کو نئی کہانیوں میں دلچسپی ہے تو میرے پاس تشریف لائیں ،میں آپ کوہرگز مایوس نہیں کروں گا۔نئے دلکش نظارے...اور آپ کے اردگرد رقصاں کارٹون جنہیں آپ سراہتے ہیں انکی حقیقت بھی بتائوں گا…احترام کے ساتھ گل
فوری طور پر جواب نہ ملا تو جنرل صاحب نے اس گستاخی پر سیخ پا ہوکر ایک اور ای میل کی جس میں لکھا:
ڈیئربلال!میں نے اپنے سابقہ پیغام کے جواب کی بے سود امید رکھی ۔ افسوس! آپ نے میرا یہ مؤقف درست ثابت کر دیا ہے کہ آپ واقعی ’بڑے‘ ہو گئے ہیں،بزعم خود بہتر بصیرت اور شائستہ اطوار سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ کتنی الم ناک بات ہے! میں نے آپ کی نہایت اچھی شبیہ اپنے ذہن میں بنا رکھی تھی۔ دعا ہے کہ آپ اپنی ابتدائی برسوں کی وہی پاکیزہ خوبیاں دوبارہ حاصل کر سکیں۔خیر اندیش گل۔
میں نے جب شام کو جنرل(ر)حمید گل کی ای میلز دیکھیں تو ان کی برافروختگی کا اندازہ ہوا۔یہ خفگی ہرگز بے وجہ نہ تھی۔دشمنوں کے تیر چوٹ نہیں پہنچاتے ،دوستوں کے گھائو تکلیف دیتے ہیں۔آپ جنہیں اپنا سمجھتے ہیں ،ان سے اس طرح کی توقع نہیں کی جاتی ۔شاید یہی وجہ تھی کہ جنرل صاحب کو میرا کالم ناگوار گزرا۔بہرحال میں نے نہایت سوچ سمجھ کر جواب دیا۔
قابل احترام جنرل حمید گل صاحب!
السلام علیکم ،میں دن بھرمصروف رہا اور آپ کے’’محبت ناموں‘‘کا جواب نہ دے سکا۔ جزوی طور پر آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ معاشرے کے کچھ طبقات ابھی تک بالغ نہیں ہوئے اور وہ اب بھی افسانوی کہانیوں کے سحر میں مبتلا ہیں۔ لیکن معاشرے کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھ چکا ہے کہ ہم نئے تجربات کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ہمیں صرف استحکام اور سیاسی عمل کے تسلسل کی ضرورت ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بدعنوان ہے لیکن یقین مانیے ہم کسی بھی احمق ڈکٹیٹر پر جمہوری طور پر منتخب ڈاکو زرداری، چور شریف اور پاگل خان کو ترجیح دیں گے۔ جی ہاں، میں بڑا ہو چکا ہوں کیونکہ صرف بیوقوف اور مردہ لوگ ہی ہیں جوکبھی بڑے نہیں ہوتے۔ میری صحافت کا کیریئر جو پندرہ برس پر محیط ہے، ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ میں کبھی اپنی شبیہ کے خبط میں مبتلا نہیں ہوا۔جہاں تک آپ کی دعوت کا تعلق ہے، میں آپ کے پاس آتا رہا ہوں اور یقیناً دوبارہ بھی آؤں گا کیونکہ مجھے آپ کے اخلاص اورنیت پر اعتماد ہے۔بعض معاملات پر اختلاف رائے کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہمارے درمیان باہمی احترام اور قدر کا رشتہ ختم ہو گیا ہے۔ محمد بلال غوری
جنرل صاحب نے بات آگے بڑھانے کے بجائے محض یہ لکھنے پر اکتفا کیا کہ جواب دینے کا شکریہ ،میں آپ کاممنون ہوں۔ارادہ تو یہ تھا کہ اسلام آباد جاکر جنرل صاحب سے ملوں گا اور اپنی معروضات پیش کروں گا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور ایک ماہ بعد ہی وہ دارِفانی سے کوچ کرگئے ۔ان کی وفات پر ایک دوست نے مجھے مخاطب کرکے طنزیہ انداز میں کہا ،جنرل حمید گل آپ کے کالم کا صدمہ برداشت نہیںکرپائے اور دنیا سے چلے گئے ۔لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔جنرل صاحب نہایت خندہ پیشانی سے تنقید برداشت کرنیوالے انسان تھے۔ایک دلیر ،زندہ دل اور نہایت شفیق و مہربان شخص۔وہ اپنے خیالات و افکار کو مدافعانہ طرز عمل اختیار کئے بغیر نہایت محکم انداز میں بیان کرنے پر یقین رکھتے تھے لیکن متبادل آرا سننے اور انہیں رد کرنے کے سلیقے سے بھی بخوبی آشنا تھے۔انکا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ دیگر ہم عصروں کی طرح انہوں نے جہاد افغانستان سے ڈالر نہیں کمائے ۔کبھی ان پر مالی بدعنوانی کا الزام نہیں لگا۔