پاکستان میں گھروں کے چولہے روشن رکھنے کے علاوہ صنعتی مقاصد کیلئے بھی گیس کئی عشروں تک باافراط دستیاب انتہائی سستے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ تاہم نئے ذخائر کی تلاش میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ سے گیس کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوا جس میں مسلسل شدت آتی گئی حتیٰ کہ 2009ءمیں گیس کے نئے کنکشنوں پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ اس پابندی کو چھ سال بعد جزوی طور پر اٹھالیا گیا لیکن 2022ءمیں گیس کی قلت بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے دوبارہ پابندی لگانا پڑی۔ تاہم ذرائع کے مطابق اب حکومت اس بات پر تقریباً آمادہ ہے کہ نئے گیس کنکشن درآمدی ری-گیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی قیمت پر دیے جائیں، جو موجودہ شرح کے مطابق تقریباً 3 ہزار 900 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس ضمن میں پٹرولیم ڈویژن نے وفاقی کابینہ کو سمری بھیج دی ہے تاکہ نئے کنکشنز پر پابندی ختم کی جاسکے۔ پہلے سال کا ہدف ایک لاکھ 20 ہزار کنکشنز ہوگا۔ان درخواست گزاروں کو ترجیح دی جائیگی جنہیں پہلے ڈیمانڈ نوٹس جاری کیے گئے تھے یا جنہوں نے ایمرجنسی فیس ادا کی تھی، لیکن بعد میں عائد پابندی کی وجہ سے کنکشن حاصل نہیں کرسکے جبکہ اگلے سال یہ تعداد مزید بڑھا دی جائیگی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نئے صارفین کو یہ سہولت اگرچہ نسبتاً زیادہ مہنگے داموں دستیاب ہوگی لیکن ملک میں لاکھوں کم آمدنی والے صارفین فی الوقت جو مائع پٹرولیم گیس استعمال کررہے ہیں اسکی قیمت تقریباً 5 ہزار 300 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جبکہ نئے کنکشن سے پائپ کے ذریعے ملنے والی ایل پی جی انہیں چالیس فی صد تک سستی ملے گی۔ تاہم سستے ایندھن کی خاطر گیس کے نئے ذخائر کیلئے مزید سرگرم کوششیں ضروری ہیں تاکہ عام صارفین کی زندگی بھی آسان ہو اور عالمی منڈیوں میں ملکی مصنوعات کی مسابقت کی صلاحیت بھی بڑھ سکے۔