• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ماہ اپنے پاکستان میں قیام کے دوران میڈیا سے ملاقات کے دوران ترکیہ کے اسرائیل کیساتھ تجارت جاری رکھنے سے متعلق بڑی غلط فہمی دیکھی جسکے بارے میں واضح کردوں کہ ترکیہ نے فلسطینیوں اور غزہ کے مسلمانوں کی محبت میں مئی 2024ء میں اسرائیل کیساتھ 9.5ارب ڈالر کی سالانہ تجارت بالکل ختم کردی اور آج بھی اس پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھاجو نہ صرف سفارتکاری کے دفتروں میں گونجا بلکہ امتِ مسلمہ کے دلوں میں ایمان کی حرارت پیدا کر گیا۔ یہ قدم محض اقتصادی نہیں تھا؛ یہ ایک اعلان تھا کہ جب قبلۂ اول پر ظلم ہو، جب غزہ کی گلیاں خون سے رنگین ہوں تو تجارت، منافع اور حساب کتاب سب پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں، اور صرف ایک صدا باقی رہ جاتی ہے’’ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ ہیں، ہر قیمت پر، ہر حال میں!‘‘یہاں پر اپنے قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات موجودہ دور میں قائم نہیں ہوئےبلکہ یہ تعلقات مارچ 1949ء میں ترکیہ کی جانب سے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے قائم ہوئے۔ یہ دراصل مسلم دنیا میں ایک انوکھا واقعہ تھا کیونکہ ترکیہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے۔ اس دور میں انقرہ کی سیاسی فضاؤں میں سیکولر ازم کا غلبہ تھا، اور اسرائیل سے تعلقات کو اسی طرزِ فکر کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔

1990 ء اور 2000ء کی دہائی کے آغاز میں تو یہ تعلقات فوجی، اسٹریٹجک اور اقتصادی تعاون کی انتہا کو پہنچ گئے۔ اسرائیلی فضائیہ ترکیہ کے آسمانوں میں مشقیں کرتی، ترک لڑاکا طیارے اسرائیلی ٹیکنالوجی سے جدید بنائے جاتے اور پانی و اعلیٰ ٹیکنالوجی کے مشترکہ منصوبے زیر غور رہتے۔2003ء میں رجب طیب ایردوان کا اقتدار میں آنا گویا ترکیہ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں ایک نئی روح پھونکنے کے مترادف تھا۔ اگرچہ 2005 ءمیں ان کا اسرائیل کا دورہ اُس وقت کے معمولی تعاون کی علامت تھا، لیکن جلد ہی انکے اسرائیل مخالف بیانات اور فلسطین کی بے لاگ حمایت نے واضح کر دیا کہ ترکیہ اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے ، ایک ایسا دور جہاں معاشی مفادات سے بڑھ کر انسانی غیرت اور مظلوموں کا دفاع اہم ہوگا۔

2010 ءکے’’ماوی مرمرہ‘‘ واقعے نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایسی دراڑ ڈالی جو آج تک بھر نہ سکی۔ ماوی مرمرہ، غزہ کے محاصرے کو توڑنے کیلئے’’غزہ فریڈم فلوٹیلا‘‘کا حصہ تھا۔ بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی افواج کا حملہ اور ترک پرچم بردار جہاز پر 37ممالک کے 663 کارکنوں کا خون بہانا ایک ایسا جرم تھا جس پر ایردوان نے اسے’’ریاستی دہشت گردی‘‘قرار دیتے ہوئے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور دنیا کو خبردار کیا کہ یہ واقعہ تعلقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکا ہے۔

ڈیوس 2009ءکا منظر آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے، جب ایردوان نے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کی طویل تقریر کے بعد غزہ پر حملوں کی کڑی مذمت کرتے ہوئے بھرے مجمع کے سامنے اسٹیج چھوڑ دیا۔ یہ لمحہ صرف ایک احتجاج نہیں بلکہ ایک اعلان تھا کہ ترکیہ مظلوم فلسطینیوں کی آواز ہے۔

ایردوان دور سے قبل بائیں بازو کی جماعتیں فلسطین کی حمایت تو کرتی تھیں، مگر بیانات تک ۔ ایردوان نے اس حمایت کو عملی اقدامات میں ڈھال دیا۔ انہوں نے فلسطینی صدر محمود عباس، حماس کے قائد خالد مشعل اور دیگر رہنماؤں سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ حتیٰ کہ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان صلح کیلئے ثالثی کا کرداربھی ادا کیا۔

پھر آیا وہ دن جب ترکیہ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ 2 مئی 2024 کو اعلان ہوا کہ اسرائیل کے ساتھ تمام برآمدات، درآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ مکمل طور پر بند کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب دونوں ممالک کے درمیان سالانہ 9.5ارب ڈالر کی تجارت ہوتی تھی، جس میں 7 ارب ڈالر ترکیہ کی برآمدات کا حصہ تھا۔یہ صرف ایک پالیسی نہیں بلکہ ایک قربانی تھی۔ ایردوان نے دنیا کو پیغام دیا کہ’’ہمارے تجارتی معاہدے، ہمارے مالی فوائد، ہمارے تمام اقتصادی حسابات اس وقت بے معنی ہیں جب ہماری ماؤں کے آنسو بہہ رہے ہوں اور قبلۂ اول پر دشمن کا سایہ ہو‘‘۔اس تجارتی بائیکاٹ کے بعد فلسطینی حکومت نے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے ترکیہ سے براہِ راست تجارت کی درخواست کی۔ چنانچہ 7 جون 2024 ء کو ’’ترکیہ-فلسطین ریاستی پروٹوکول‘‘کے تحت ایک خاص، کنٹرول شدہ نظام قائم کیا گیا۔ اسکے تحت صرف وہ آرڈرز منظور ہوئے جن میں خریدار فلسطینی ہو، پتا فلسطین کا ہو، اور ہر درخواست وزارتِ تجارت کی سخت جانچ کے بعد منظور کی جائے۔ اسی نظام کے ذریعے 2024ءمیں ترکیہ سے فلسطین کو 797ملین ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔یاد رہے فلسطین کی اپنی کوئی بندرگاہ نہیں، اس لیے یہ سامان اسرائیل کی بندرگاہوں سے گزر کر پہنچتا ہے۔ مگر بعض حلقے اس حقیقت کو توڑ مروڑپیش کرتے ہیں حالانکہ یہ تجارت مکمل طور پر فلسطین کیلئے اور حکومتی نگرانی میں تھی۔آج اگر کوئی رہنما ہے جو کھل کر اسرائیل کے مظالم کیخلاف بولتا ہے تو وہ رجب طیب ایردوان ہیں۔انکی تقریروں میں وہی جرات، وہی للکار اور وہی غیرت جھلکتی ہے جو صدیوں پہلے مسلم فاتحین کی للکار میں ہوا کرتی تھی۔اسرائیل کے ساتھ تجارت ختم کرنا اور فلسطین سے یکجہتی صرف سیاسی فیصلے نہیںبلکہ ایک ایسا بیانیہ ہےجو عثمانی ورثے سے جڑا ہے، جس میں بیت المقدس کی اذانوں کی گونج ہے۔ ترکیہ کا یہ فیصلہ آنے والی صدیوں کیلئے ایک مثال ہے۔جب تاریخ لکھی جائے گی تو مئی 2024ء کا یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا، اور اس کیساتھ رجب طیب ایردوان کا نام بھی۔

تازہ ترین