پاک امریکہ تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے بتدریج بہتری کی جانب گامزن دکھائی دیتے ہیں مگر یہ طے شدہ حقیقت ہے اور گورے تو برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ’’فری لنچ ‘‘ یعنی بغیر کسی مفاد کے کسی کوفائدہ نہیں دیا جاتا اور اس وجہ سے ہی یہ سوال بہت تیزی سے اپنی جگہ بناتا چلا جا رہا ہے کہ پاکستان سے اچھے تعلقات کے بدلے میں امریکہ کن مفادات پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے ؟ ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایک مخصوص’’ دانشور‘‘ طبقے نے یہ پروپیگنڈا بہت زور و شور سے طویل عرصے سے عوام کے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے کہ پاکستان امریکہ کی ہر خواہش پوری کرنے پر روز اول سے کمر بستہ رہا ہے اور اسی سبب سے ہی پاکستان اب بھی’’ نہیں‘‘ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ حالانکہ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے دشوار حالات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے مفادات کا کھل کر اظہار کرتا تھا ، خیال رہے کہ حالات تو ابتدا میں اس حد تک دشوار تھے کہ برطانیہ نے یہ طریقہ کار اختیار کیا تھا کہ پاکستان کو کوئی بھی ہتھیار فراہم کرتے وقت انڈیا کو مطلع کرنا ضروری تھا ۔ جب جنگ کوریا ہوئی تو امریکا نے یہ کوشش شروع کردی کہ اقوام متحدہ کے تحت پاکستان کی افواج بھی جنگ کوریا میں شریک ہوں اور امریکا نے لیاقت علی خان کو یہ دھمکی آمیز پیغام اپنے سفیر کے ذریعے پہنچایا کہ’’ اگر امریکہ ( اقوام متحدہ )کو اس فوجی مہم میں ٹھوس تعاون دیگر ممالک سے نہ ملا تو اجتماعی سلامتی کا نظام ختم بھی ہو سکتا ہے۔ بلا شبہ پاکستان اس امر سے آگاہ ہے کہ اقوام متحدہ کے دوسرے ملکوں کو بھی کسی روز جارحیت کا نشانہ بننے پر اقوام متحدہ کے وسائل کی ضرورت پڑ سکتی ہے '۔‘‘ پاکستان کو یہ بڑا سخت پیغام تھا مگر انکے سامنے بھی لیاقت علی خان تھے جو صرف پاکستان کیلئے اپنا سب مال و دولت ترک کر چکے تھے ۔ امریکی سفیر کے اس پیغام کے جواب میں لیاقت علی خان نے بہت واضح شرائط سامنے رکھ دیں’’انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کا وقت آ گیا ہے ۔ اگر امریکہ ان سے مشرقِ وسطیٰ میں تعاون یا کوریا میں استعمال کیلئے ایک یا زیادہ ڈویژنوں کی پیش کش کا طلب گارہے تو پھر وہ پاکستان کے معاملے میں کس قسم کی ذمہ داری قبول کرے گا ؟ اگر وہ امریکہ کا ہاتھ پکڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو کیا امریکہ کشمیر کے مسئلے پر ان کی حمایت کرے گا ؟ نہرو بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ’’آئین ساز اسمبلی ‘‘کے انتخابات کروانے پر تلے ہوئے ہیں ، نہرو کے طرز عمل کو ناکام بنانے کیلئے امریکہ کیا قدم اٹھائے گا ؟
کیا امریکہ پختونستان کی بکواس کو ختم کرانے میں پاکستان کی مدد کرے گا ؟ امریکہ ان سے ایک ایسے فیصلے کی خواہش کر رہا تھا جو’’ مغرب کے ساتھ ناقابل تلافی رشتے ‘‘پر دلالت کرتا ہے ۔ وہ یہ فیصلہ کرنے پر تیارہیں ! کیا امریکہ بھی پاکستان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے پر تیار ہے ؟ قائد ملت لیاقت علی خان کے اس واضح مؤقف کے بعد امریکی وزیر خارجہ ایچیسن نے جو جواب اپنے سفیر کو تحریر کیا وہ ه برصغیر کے نئی مملکتوں کے حوالے سے امریکی پالیسی کو واضح کرتا ہے ، انہوں نے لکھا کہ’’ اگر لیاقت علی خان فوج فراہم کرنے کی پیشکش کو امریکہ کی طرف سے کشمیر اور پختون مسائل پر مکمل اور غیر مشروط حمایت سے جوڑتے ہیں تو یہ ان کیلئے قابل قبول نہیں ۔ اس قسم کا امریکی اقدام بھارت اور افغانستان کی حکومتوں کو مکمل طور پر برگشتہ کرنے کا موجب بنے گا ۔‘‘ خیال رہے کہ کہیں کوئی’’ دانشور‘‘اس کو ’’مطالعہ پاکستان‘‘نہ قرار دے دے۔ اسلیے بیان کر رہا ہوں کہ یہ ساری تفصیلات امریکی محکمہ خارجہ کی دستاویزات’’ خارجہ تعلقات 1951‘‘ میں موجود ہیں ۔ لیاقت علی خان نے امریکی ضروریات کے سامنے پاکستانی ضروریات رکھ دیں کہ جیسا سلوک آپ ہمارے ساتھ روا رکھیں گے ویسا ہی سلوک ہم بھی آپ سے کریں گے ۔ آج جب ریئر ارتھ منرلز اور دوسرے امور پر پاکستان سے گفتگو کی جا رہی ہے تو پاکستان کو بھی چاہئے کہ اپنی تمام ضروریات بلا کم و كاست امریکہ کے سامنے رکھ دے اور بعد میں یہ رونا مت رویا جائےکہ ہم نے تو امریکہ کے ساتھ یہ سب کیا مگر امریکہ بے وفا نکلا ۔ اسکے ساتھ ساتھ اس بات کی پاکستان جیسے بڑے ملک کو قطعی طور پر پروا نہیں ہونی چاہئے کہ امریکہ کے انڈیا سے تعلقات کیسے ہیں ۔
ہمارا مرکزی نکتہ صرف ہمارے اور امریکہ کے تعلقات کس نوعیت ، کن جہتوں پر ہیں ،ہونی چاہئے ۔ امریکہ کی اپنی ضروریات ہیں جسکے سبب وہ ه ممالک سے معاملات طے کرتا ہے ۔ 1975 میں صدر فورڈ کا دورہ انڈیا ہونا تھا مگر نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ صدر فورڈ اندرا گاندھی کے ایمرجنسی نافذ کرنے کی وجہ سے اب انڈیا نہیں جا رہے پھر اسی پر نیوز ویک نے رپورٹ شائع کی کہ انڈیا سے ناراضی کی وجہ سے وائٹ ہاؤس اب اس خطے میں دوسرے ممالک جیسے فلپائن ، انڈونیشیا ، سنگاپور ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا مطالعہ کر رہا ہے تا کہ صدر فورڈ دورہ چین کے بعد انڈیا کی بجائے ان ممالک کا دورہ کریں ۔ امریکی پالیسی بدلتی رہتی ہے ۔ اس لئے پاکستان کو اس سے قطع نظر کہ صدر ٹرمپ مودی کے دوست ہیں یا نہیں اپنی حکمت عملی کو تیار کرنا چاہئے اور جہاں کہیں’’نہیں یا ہاں‘‘کہنے کی ضرورت ہو اس کی مکمل تیاری ہونی چاہئے ۔