ہماری واحد خواہرِ نسبتی عمران خان کی بے پناہ مداح ہیں، یہ بھی اسی غیر سیاسی متوسط شہری طبقے میں شامل ہیں جنہیں سیاست میں دلچسپی عمران خان کی وجہ سے پیدا ہوئی، ڈی چوک 2014ء کے دھرنوں میں اہتمام سے جایا کرتی تھیں اور اسکے بعد بھی عمران کی جلسہ جلوس کی کال پر اکثر لبیک کہتی رہی ہیں، بے شک ہماری عمروں میں یہ جسمانی مشقت اور تحرک صریحاً انکے سیاسی اخلاص کا شاخسانہ ہے۔ بہرحال، اب وہ ایسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتیں، اس لیے کہ ایک تو اب یہ جلسے جلوس ہوتے ہی نہیں، اور اگر کبھی ہوں بھی تو انکا ساتھ دینے والے تتر بتر ہو چکے ہیں۔ بہت دنوں بعد کل ان سے ملاقات ہوئی تو حال احوال کے بعد انہوں نے اپنا مرغوب موضوع اٹھایا،’’عمران کو چھوڑیں گے بھی کہ نہیں‘‘۔ ان کا لہجہ شکستہ تھا۔ پہلے وہ یہی سوال پُر امید لہجے میں پوچھا کرتی تھیں یعنی’’میرے لیڈر کو کتنا عرصہ اندر رکھ لیں گے؟‘‘
ملک کے اندر اور ملک سے باہر، جہاں جہاں محبانِ عمران سے ملاقات ہوتی ہے، ان پہ آہستہ آہستہ یہ حقیقت اُتر رہی ہے کہ عمران خان کی رہائی اور پارٹی کی سیاسی نظام میں باعزت بحالی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔عالم اسباب و علل تو مایوس کن ہے۔ اب جادو کی چھڑی اور عالمِ غیب پر کامل تکیہ ہے۔ عمران خان کی سیاسی فیصلہ سازی غیر دانش مندانہ رویوں کی ایک ڈراؤنی داستان ہے، انہوں نے تاریخ کے ہر سبق کی نفی کی، انہوں نے کامن سینس کا انکار کیا، انہوں نے ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کا انجام اس کے سوا کچھ اور ممکن ہی نہیں تھا۔ لہٰذا انکی موجودہ صورت حال کسی ایک غلط فیصلے کا پھل نہیں ہے، یہ ایک مخصوص ذہنی فضا کا نتیجہ ہے جو تا دم تحریر برقرار ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ پارٹی انتشار کا شکار ہے، اپنی سٹریٹ پاور کھو چکی ہے، سسٹم میں کہیں سے اب اسے مدد میسر نہیں ہے، عدالتیں 26ویں آئینی ترمیم کے تحت سانس لے رہی ہیں، کسی دوست ملک کے ایجنڈے میں عمران کی رہائی مذکور نہیں ہے، ٹرمپ فیلڈ مارشل کی آؤ بھگت میں مصروف ہے، چین اور پاکستان دفاعی و معاشی تعاون کی منزلیں بگٹٹ سر کر رہے ہیں، اور سونے پر سہاگا مئی کی پاک بھارت جنگ، جس میں پاکستان کی واضح برتری نے ملک کی دفاعی اور سفارتی حیثیت کو سربلند کر دیا ہے اور موجودہ حکمرانوں کو بھی ایک نیا اعتماد بخشا ہے۔ یہ درست ہے کہ معاشی میدان میں عام آدمی اسی طرح پِس رہا ہے، مگر حکومت کے پاس اس منطقے میں بھی ڈیفالٹ کا خطرہ ٹلنے سے شرح سود کم ہونے تک، کچھ مثبت اشارے موجود ہیں۔ یہ سارا منظر حکومتی بندوبست کو کسی بھی ممکنہ عدم استحکام کی کوشش کو آہنی ہاتھ سے نپٹنے کی مزید ترغیب دیتا نظر آتا ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ جس میں عمران خان آگ اُگل رہے ہیں، نام لے کر دشنام طرازی کر رہے ہیں، ذاتی دشمنی پیدا کر رہے ہیں بلکہ کر چکے ہیں۔ نواز شریف نے گوجرانوالہ جلسے میں آڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے ایک بار باجوہ صاحب کا نام لیا تھا، دباؤ پیدا کیا تھا، اور اپنی حکمت عملی سے مطلوبہ سیاسی مقاصد حاصل کر لیے تھے، عمران خان سمجھ ہی نہیں سکے کہ رکنا کہاں ہے، حتیٰ کہ 9مئی سے ہوتے ہوئے آج کے دن تک پہنچ گئے۔ عمران خان کے مستقبل بارے لوگ اندازے لگاتے رہتے ہیں، جذباتی بھی اور حقیقی بھی۔ کیونکہ بہرحال اس سارے قضیے کا اچھا یا برا، آج نہیں تو کل، انجام تو ہونا ہی ہے۔ آئیے ہم بھی گمانوں کے سفر پر چلتے ہیں، مستقبل کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ ایک منظر تو یہ ہے کہ لاکھوں شہری سڑکوں پر نکل آئیں، نظام زندگی طویل عرصے کیلئے مفلوج ہو جائے، سول نافرمانی آغاز ہو جائے، تھانہ کچہری بند ہو جائے، سرکاری اداروں پر پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا دیا جائے، اداروں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہو، باوردی اصحاب دھرنوں میں شامل ہو جائیں، جیل توڑ کر عمران خان کو رہا کروا لیا جائے، یا یوں کہہ لیں کہ ایک اور نو مئی ہو جو کامیاب ہو جائے۔ یہ انقلاب ناممکنات کا دفتر دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا منظر یہ ہے کہ خاکم بہ دہن کوئی عظیم ملکی سانحہ ہو جائے، جیسے جنگ میں ہم واضح شرمندگی سے دوچار ہو جاتے، یا عمران کے سب حریفوں کو کوئی عفریت نگل لے، یا کوئی ہیبت ناک آسمانی آفت۔ یہ منظر نامہ سیاسی کم اور بددعائیہ زیادہ لگ رہا ہے۔ عمران جن اصحاب سے ذاتی دشمنی ڈال بیٹھے ہیں انکے منظر سے ہٹنے کے امکانات بھی تاحد نظر دکھائی نہیں دیتے، غالباً اس تبدیلی میں پانچ دس سال لگ سکتے ہیں۔ ایک منظر جلاوطنی کا ہے، مگر کیونکہ اس معاملے میں کوئی فریق بھی عمران کی گارنٹی دینےکیلئےتیار نظر نہیں آتا، اسلئے یہ منظر بھی خارج از امکان ہے۔ ایک صورت عمران کی صحت کی سنجیدہ تنزلی ہو سکتی ہے جو انکی رہائی پر منتج ہو۔ فی الحال تو حاسدینِ عمران کی یہ خواہش بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ ایک افسوسناک منظر یہ بھی ہے کہ عمران ایک طویل مدت تک جیل میں ہی رہیں۔
پھر ایک تصویر یہ ہے کہ عمران خان گالیاں دینے سے پرہیز کریں، بات چیت کا ڈول ڈالیں، دو شرائط’’ان کی‘‘مانیں ایک آدھ اپنی منوانے کی کوشش کریں۔ یہ شرائط کیا ہو سکتی ہیں؟ ایک مخصوص مدت کیلئے عمران سیاست ترک کر دیں، سیاسی خاموشی اختیار کریں، بنی گالا منتقل ہو جائیں، موجودہ نظام کو چلنے دیں، وغیرہ وغیرہ۔
ان درجن بھر امکانات میں سے صرف ایک امکان ایسا ہے جو عمران خان کے اپنے اختیار میں ہے یعنی صلح و معافی تلافی کا امکان، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ عمران کے حیطۂ اختیار سے باہر ہے۔اس صورت حال میں اب آپ ہی بتایئے اگر کوئی سوال کرے کہ’’میرا لیڈر کب رہا ہو گا‘‘ تو اسے کیا جواب دیا جائے؟