• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجانے اس ضرب المثل کا پس منظر کیا ہے مگر میں نے بچپن میں یہ جملہ اپنی والدہ سے سنا اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے دورہ جاپان کی مناسبت سے یاد آیا۔مریم نوازشریف نے جاپان کے شہر یوکوہاما میں ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ کرنے کے بعد اس عزم کا اظہار کیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کوڑا تلف کرنے کا یہ نظام پنجاب میں متعارف کروایا جائیگا اورلاہور کو یوکوہاما کے طرز پر ترقی دی جائیگی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اخلاص اور نیت پر کوئی شک نہیں ۔ترقی یافتہ ممالک بالخصوص جاپان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ہر سال11سے12سال کی عمر کے چار پاکستانی بچے جاپان کے شہر Fukuoka میں ہونے والے Bridge summer Campمیں شرکت کیلئےجاتے ہیں اور قابلیت کی بنیاد پر طویل طریقہ کار کے بعد ان طلبہ وطالبات کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔رواں سال میری بیٹی عبیرہ خان غوری نے اس کیمپ میں بطور جونیئر Ambassador شرکت کی۔اسکے ذریعے جاپان کی اقدار و روایات کو جاننے اور وہاں کے نظام تعلیم کو سمجھنے کا موقع ملا۔دعویٰ تومسلمانوں کا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن عملاً اس پر جاپان کے لوگ کاربند ہیں۔بہر حال ،اس پر عبیرہ کے تجربات و مشاہدات پھر کبھی تفصیل سے بیان کروں گا۔فی الوقت یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ ہمارا ’’پتھروں سے بھرا ڈمپر‘‘ہمسایہ ملک کی’’ چمکتی مرسیڈیز ‘‘کا مقابلہ کرلے تو بڑی بات ہے ،جاپانی لیکسس سے اسکا تقابل کرنا غیر حقیقت پسندانہ طرزعمل ہے۔ یوکوہاما جاپان کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 3.65ملین ہے۔یہاں برسہا برس سے نہ صرف کوڑا جمع کرکے اسے کارآمد بنانے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے بلکہ اسکی مقدار کم کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔2001ء میں یوکوہاما کا ویسٹ1.61ملین ٹن تھا جو 2010ء میں کم ہوکر 0.91ملین ٹن رہ گیا۔ یعنی دس سال میں کوڑا کرکٹ کی مقدار 43فیصد کم ہوگئی۔یوکوہاما کے برعکس لاہور میں روزانہ 5500ملین ٹن کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے اور ہر گزرتے سال اسکی مقدارکم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف عوامی سطح پر شعور بیدار کیا گیا بلکہ کچرے کو 5کے بجائے 10اقسام میں منقسم کردیا گیا یعنی استعمال شدہ کپڑوں ،پلاسٹک ،کاغذ اور دیگر اشیاء کو الگ الگ جمع کرنے کا بندوبست کیا گیا۔شہر میں کوڑا جمع کرنے کے 80000مراکز قائم کیے گئے ہیں۔لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2022ء میںیوکوہاما کا کوڑا کرکٹ اُٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا سالانہ بجٹ 8.5بلین ڈالر تھا جبکہ پنجاب کا مجموعی بجٹ 18.9بلین ڈالر ہے تو کیا جاپان جیسا جدید نظام یہاں متعارف کروایا جاسکتا ہے؟کیا ہم18.9بلین ڈالر میں سے 8.5بلین ڈالر صرف کچرا جمع کرنے پر خرچ کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں اور وہ بھی صرف ایک شہر کیلئے؟

اس سے پہلے جب میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے2012ء میں لاہور کو استنبول بنانے کیلئے ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کیلئے نہ صرف ترک ماڈل مستعار لیا بلکہ صفائی کا ٹھیکہ بھی دو ترک کمپنیوں کو دیدیا۔2003ء میں لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا سالانہ بجٹ 2.5ارب روپے ہوا کرتا تھا مگر وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر ملکی کمپنیوں کی خدمات حاصل کیے جانے کے باعث ان اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔بعد ازاں 2020ء میں یہ سلسلہ ناخوشگوار موڑ پر ختم ہوا کیونکہ ان غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے کوڑا کرکٹ اُٹھانے پر بہت زیادہ اخراجات آرہے تھے۔اب لاہور ویسٹ منیجمنٹ کمپنی نے یہ کام خود سنبھال رکھا ہے۔چنانچہ کچراجمع کرکے ٹھکانے لگانے کا کام جس پر ماضی میں آئوٹ سورس کرنے کے باعث 28ارب روپے خرچ ہورہے تھے اب 17ارب روپے میں ہورہا ہے۔لیکن اس بجٹ کو ڈالروں میں تبدیل کیا جائے تویہ بمشکل 6کروڑ ڈالر بنتے ہیں ۔یعنی کہاں یوکوہاما کا 8.5بلین ڈالر کا بجٹ اور کہاں 6کروڑ ڈالر جو اونٹ کے منہ میں زیرے سے بھی کم ہیں ۔تو آپ ہی بتائیے ،جدید ٹیکنالوجی کا حامل یوکوہاما کا ماڈل لاہور میں کیسے متعارف کروایا جاسکتا ہے؟

شریف خاندان کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہئے کہ ہر دور حکومت میںدیگر ممالک سے ترقی و خوشحالی کا ماڈل مستعار لیکر نظام بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی رہی۔میاں نوازشریف نے اسلام آباد ،لاہور موٹروے تب بنائی جب اس پورے خطے میں کہیں یہ تصور موجود نہیں تھا۔اسی طرح شہبازشریف نے پورے صوبے میں سڑکوں کا جال بچھادیا اورصوبائی دارالحکومت لاہور کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سب سے پہلے یہاں میٹرو بس چلی ،پاکستان میں اورنج ٹرین کا اکلوتا منصوبہ لاہور میں ہی کامیابی سے چل رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ اور پشاور ہی نہیں کراچی کے مکین بھی لاہور کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف اسی سیاسی میراث کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔جو لوگ ان کے دورہ جاپان کے اخراجات کو لیکر تنقید کر رہے ہیں ،انکے مسائل کچھ اورایجنڈا کچھ اور ہے ۔انہیں تو مریم نوازشریف کے پاک فضائیہ کے طیارے میں سفر کرنے اور گلابی رنگ کے کپڑے پہننے پر بھی اعتراض ہے ۔

میری رائے یہ ہے کہ مریم نوازشریف ترقی و خوشحالی اور گڈ گورننس کا تصور مستعار لینے کیلئے مختلف ممالک اور شہروں کے دورے ضرور کریں بلکہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی انکی تقلید کریں مگر موازنے اور تقابل کیلئے سارک ممالک کو اسٹڈی کیا جائے ۔حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے کے ان ممالک اور شہروں میں رائج نظام کا جائزہ لیا جائے جنکے مسائل اور وسائل پاکستان سے مطابقت رکھتے ہیں کیونکہ ’’ڈمپر‘‘ چھوٹی موٹی گاڑیوں کا مقابلہ تو کرسکتا ہے لیکن ہر میدان میں اسے ’’مرسڈیز‘‘اور ’’لیکسس‘‘ جیسی پرتعیش گاڑیوں کے مقابلے میں دوڑانے کی خواہش کسی حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

تازہ ترین