مون سون کی بوندیں جب کسی شاعر کے کاغذ پر گرتی ہیں تو غزل بنتی ہیں، مگر جب پاکستان کی زمین پر برستی ہیں تو قبریں کھود دیتی ہیں۔ یہ کیسی بارش ہے جو گلوں کو نہیں، گلیوں کو لہو سے تر کرتی ہے؟۔ہزاروں برس کی تہذیبیں دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں۔ آج انہی دریاؤں کے کنارے بستیاں ڈوب رہی ہیں۔ کھیت پانی میں نہیں، خون میں سینچے گئے ہیں۔ مکان مٹی نہیں، گویا تاریخ کے ملبے تلے دفن ہو رہے ہیں۔ہماری ریاست کی فائلوں میں بے شمار منصوبے ہیں، قانون ہیں، وعدے ہیں۔ مگر زمین پر صرف کچی دیواریں ہیں، ریت کے بند ہیں اور چیختے لوگ ہیں۔ یہ قوم ابھی تک وارننگ سسٹم نہیں سنبھال سکی، تو کل طوفان کا سامنا کیسے کریگی؟۔ عالمی طاقتوں کی میزوں پر کانفرنسیں ہیں، بیانیے ہیں، وعدوںکے شور ہیں۔ مگر جب پانی ہمارے بچوں کو بہا لے جاتا ہے تو ان میزوں پر صرف خالی کرسیاں رہ جاتی ہیں۔ امریکہ خسارے کے فنڈ سے پیچھے ہٹ گیا ہے، اور ہم اپنی ہی کچی چھتوں تلے بار بار دفن ہوتے جا رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف ہمدردی کیلئے جی رہے ہیں؟ ۔یہ ملک دنیا کے کارخانوں کا دھواں نہیں اُگلتا۔ ہمارے پاس سمندر کو کالے تیل سے بھر دینےوالے جہاز نہیں۔ ہماری فیکٹریاں زمین کو زہر نہیں بناتیں۔ لیکن پھر بھی ہمارا حصہ موت ہے، اور دوسروں کا حصہ منافع۔ ہماری حکومت کے پاس ہر آفت کے بعد ایک بیان ہے’’ہم متاثرین کیساتھ ہیں۔‘‘ لیکن متاثرین کے پاس کوئی سائبان نہیں، کوئی دوا نہیں، کوئی راستہ نہیں۔ یہ کیسا ساتھ ہے جو صرف اخبار کے صفحے پر ہے؟ پاکستان کو آج صرف رقم نہیں، بصیرت چاہیے۔ ہمیں وہ قلعے نہیں بنانے جو دشمن سے بچائیں، بلکہ وہ بند باندھنے ہیںجو بارش سے بچا سکیں۔ ہمیں وہ قانون نہیں چاہئیں جو کاغذ پر سو جائیں، بلکہ وہ نظام چاہیے جو بستیوں کو جگا دے۔یہ پانی ہمارے لئے سوال ہے۔ یہ پوچھتا ہے:کیا تم بار بار مرنےکیلئے پیدا ہوئے ہو؟ یا تم وہ نسل ہو جو پانی کو موت سے زندگی میں بدل دیگی؟۔ لیکن فی الحال تو حقیقت یہی ہے۔دنیا کی میزوں پر فیصلے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی گلیوں سےجنازے اٹھتے ہیں۔
خود امریکہ سمندروں کا دیس ہے، وہاں جب لہریں اٹھتی ہیں تو پہاڑوں کو بھی نگل لیتی ہیں۔ مگر وہاں مرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ وہاں بڑے سونامی چند ہی آئے ہیں، مگر ان کے قصے پوری دنیا میں گونج گئے۔انیس سو چونسٹھ میں الاسکا کے ساحل پر 9.2شدت کا زلزلہ آیا۔ زمین کانپی، سمندر دھاڑا اور لہروں نے پچاس فٹ اونچی دیواریں بنائیں۔ اس دیوار کے سامنے گھر کاغذی کھلونوں کی طرح ڈھے گئےمگر ہزاروں لوگوں کو مرنے سے بچالیا گیا۔ دو ہزار گیارہ میں جب سونامی امریکہ کے مغربی ساحل سے ٹکرایا تو کیلیفورنیا کی بندرگاہوں میں جہاز الٹ گئے، پورے پورے شہر پانی میں ڈوب گئے مگر ہلاکتیں چند ایک ہوئیں ۔امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھیں۔ یہاں نہ کوئی بحرالکاہل ہے، نہ زلزلے سے اٹھنے والی لہر۔ یہاں صرف بارش ہے۔ آسمان کے آنسو ہیں، جو زمین کو جل تھل کر دیتے ہیں۔ مگر ہم نے اپنی نااہلی کے سبب ان آنسوئوں کو زہر میں بدل دیا ہے۔ یہ بارشیں جو سال میں تین چار بار آتی ہیں۔ کبھی وادی سوات کو بہا دیتی ہیں، کبھی کراچی کی سڑکوں کو سمندر بنا دیتی ہیں، کبھی سندھ اور بلوچستان کو دلدل بنا جاتی ہیں۔ 2022ء کی بارشیں یاد کریں: ایک ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں اور آٹھ ملین لوگ بے گھرہوئے ۔اس کے مقابلے میں وہ ممالک بھی ہیں جہاں سارا سال مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے مگرزندگی کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پاکستان میں صرف ایک بار ش کے موسم میں ہزاروں انسان مر جاتے ہیں۔ ناروے، سویڈن اور فن لینڈ کودیکھئے جہاں چھ چھ ماہ سورج نہیں نکلتا، زمین برف سے ڈھکی رہتی ہے، درجہ حرارت منفی 30 سے نیچے اتر جاتا ہے۔ مگر اسکولوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں، ٹرینیں وقت پر چلتی ہیں اور کارخانے دھواں اگلتے رہتے ہیں۔ وہاں کے لوگ سردی کو آفت نہیں، تہذیب کا حصہ سمجھتے ہیں۔چلیں آئس لینڈ کی طرف: برف، آتش فشاں، بارش اور تیز ہوا۔ یہاں موسم ایک دن بھی رحم نہیں کرتا۔ لیکن وہاں کی قوم توانائی میں سب سے آگے ہے، خوشحالی میں مثال ہے۔ وہ طوفانوں کو شکست نہیں دیتی بلکہ ان کیساتھ جینا سیکھ لیتی ہے۔برطانیہ کی کہانی اور دلچسپ ہے: یہاں دن کا نصف حصہ بادلوں اور بارش کے نام، اور دھوپ کا نکلنا ایک خبر۔ مگر اسی دھند اور بارش کے بیچ لندن دنیا کا دل دھڑکتا ہے۔مالیاتی مرکز، ثقافتی دارالحکومت اور جدید زندگی کا استعارہ۔اور کینیڈا: جہاں برف کے طوفان شہروں کو نگل جاتے ہیں، ہوائیں انسان کے ہونٹ جما دیتی ہیں۔ مگر دفاتر بند نہیں ہوتے، ٹرینیں رکتی نہیں، اسکولوں کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ لوگ منفی 40میں بھی چلتے ہیں، ہنستے ہیں، جیتے ہیں۔روس کے سرد صحراؤں کو یاد کریں، خاص طور پر سائبیریا۔ وہاں سال کے نو مہینے زمین جم جاتی ہے، دریا برف کے نیچے چھپ جاتے ہیں۔ مگر وہاں بھی ریلوے چلتی ہے، صنعت دھڑکتی ہے، اور لوگ اپنے گھروں میں زندہ رہتے ہیں۔اور پھر جاپان۔ وہاں بارش ہے، زلزلے ہیں، سونامی ہیں، طوفان ہیں۔ لیکن ان کی تہذیب نے ایک اصول بنا لیا ہے:’’زندگی کو چند گھنٹوں سے زیادہ رکنے نہیں دینا۔‘‘ تباہی کے فوراً بعد سڑکیں صاف، ٹرینیں بحال، اسکول دوبارہ آباد۔
فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا کے پاس دیواریں ہیں، ہمارے پاس صرف دعائیں۔ ان کے پاس وارننگ سسٹم ہیں، ہمارے پاس لاشوں کے اعدادوشمار ہیں۔ سوال یہی سب سے اہم ہے کہ اگر بارش ہمارے لئے موت ہے تو دنیا کے وہ ملک کیسے ہیں جہاں سارا سال آسمان کا چہرہ مسکراتا کم اور برستا زیادہ ہے وہاں کیوں زندگی ہنستی مسکراتی ہے؟