• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصہ قبل وفاقی حکومت نے ایک لیٹر جاری کیا، جس میں یہ درج تھا کہ جو سرکاری ملازمین پنشن لے رہے ہیں، وہ دوسری تنخواہ نہیں لے سکتے۔ اس لیٹر کو جاری کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کچھ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی بڑی تنخواہوں پر فائز کر دیئے جاتے تھے، مثلاً ستر ستر لاکھ تنخواہوں پر بھی لوگ فائز کئے گئے حتیٰ کہ کچھ لوگ تعلیمی اداروں سے بھی نو نو دس دس لاکھ روپے وصول کر رہے تھے، جونہی یہ لیٹر جاری ہوا تو اس خط کی آڑ میں تعلیمی اداروں نے اعزازی پیسے دینا بھی بند کر دیئے۔ جونہی اعزازیے بند ہوئے تو کئی ریٹائرڈ پروفیسر صاحبان نے آواز بلند کی، آواز کی بلندی کے احترام میں وفاقی حکومت کو احساس ہوا تو اس نے خط کی تصحیح کی کہ اس سلسلے میں دوسری تنخواہ بند کی گئی ہے، اعزازیہ بند نہیں کیا گیا، لہٰذا اعزازیوں کو جاری رکھا جائے۔ وفاقی حکومت نے خط لکھ کے اپنی ذمہ داری پوری کر دی مگر حیرت ہے کہ صوبائی تعلیمی اداروں نے پہلے خط پر تو عمل کر لیا مگر دوسرے خط پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا، اس عملدرآمد نہ ہونے کے باعث زندگی بھر پڑھانے والے اساتذہ پریشان ہیں کہ آخر تعلیمی ادارے واضح ہدایت کے باوجود عملدرآمد کیوں نہیں کر رہے؟ زندگی بھر علم کی شمعیں روشن کرنیوالے اساتذہ کی پریشانی کا یہ عالم ہے کہ

قصہ غم تمہیں سنائیں ہم

اتنے آنسو کہاں سے لائیں ہم

زندگی بھی عزیز تم سے بھی پیار

کس سے روٹھیں کسے منائیں ہم

یاد رہے کہ قومیں اعلیٰ اقدار سے بنتی ہیں مگر اعلیٰ روایات کے فقدان سے زوال پذیر ہوتی ہیں، جس قوم نے بھی اپنی اخلاقی اقدار کا گلا گھونٹا، زمانے اور دیگر اقوام نے اس کا معاشرتی رتبہ کم کیا اور اس کا وقار ختم ہو گیا، اسکی شناخت مٹا کر رکھ دی گئی بلکہ اس کی حالت یہ ہو گئی کہ نہ اس کی اپنوں میں عزت رہی نہ دنیا میں توقیر۔ کسی بھی معاشرے کا سیاسی، سماجی اور اخلاقی و تربیتی لائحۂ عمل ، اسکے تعلیمی نظام سے وابستہ ہوتا ہے۔ جتنا یہ تربیتی نظام مضبوط ہو گا، معاشرتی و سماجی ڈھانچہ اتنا ہی استوار و قابل احترام ہو گا۔ جاپان کی مثال لیجیے، اس کا تربیتی کورس گھر ہی سے شروع ہوتا ہے، اسکولوں میں اولین درس، سماجی اقدار کی پاسداری ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی دیکھیے! کہ اس کا یہی نظام بد حالی کا شکار ہو گیا ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ یعنی کسی بھی ملت اور قوم کی اولین ترجیح تعلیم ہونی چاہیے لیکن پاکستان میں یہی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور اس کے ذمہ دار بھی ہمارے اپنے نام نہاد حکومتی دانشور ہیں، جنہیں اپنی تہذیب، اصلی شناخت اور ملت اسلامیہ کی درخشاں روایت کا ادراک ہی نہیں کیونکہ

حقیقتوں سے ہے دنیا کو اعتراض بہت

کہ ہے نگاہ زمانہ فسانہ ساز بہت

انہیں شعورِ محبت نہیں خدا کی قسم

جو لوگ ہیں تیری محفل میں سرفراز بہت

میں طویل عرصے سے تعلیمی اداروں، اساتذہ اور پنشن میں اصلاح کے نام پر ہونیوالی ناہمواری کو دیکھ کر بہت افسوس محسوس کر رہا ہوں اور اسکے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کر چکا ہوں لیکن ہمارے خود منفعتی ٹولے کے کانوں اور آنکھوں پر مہر لگی ہوئی ہے وہ نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی سنتے ہیں۔ آج ایک یونیورسٹی کے دیرینہ دوست کی باتیں سن کر تو ایسا لگاکہ

وہ حبسِ ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ

پاکستان سے پیار کرنے والے اسکی بربادی نہیں چاہتے بلکہ اسکی خوشحالی چاہتے ہیں، اسی لئے وہ سماجی نا ہمواریوں کیخلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ یونیورسٹیوں میں جب کوئی غیر معمولی پروفیسر ریٹائرڈ ہوتا ہے یا بہت ہی اچھا منتظم جو یونیورسٹی میں اپنے شعبے یا تمام یونیورسٹی کے علمی مسائل اکیڈمک کونسل، ریسرچ بورڈ، سنڈیکیٹ و دیگر مالی و انتظامی معاملات میں ادارے کیلئے مفید ہو تو باقاعدہ ایک لیگل و آئینی طریقہ کار سے، یونیورسٹی کی سب سے معتبر باڈی سنڈیکیٹ ، ایچ ای سی یونیورسٹی کلینڈر کے منظور شدہ قوانین کے مطابق، ایسے شخص کو پروفیسر تا حیات کا اعزاز عطا کرتی ہے اور ایک معمولی اعزازیہ بھی دیا جاتا ہے، جو یونیورسٹی میں آنے جانے کیلئے اخراجات کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت کے کار کنانِ قضا و قدر افلاطون جنکو ان قانونی باریکیوں کا سرے سے علم ہی نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کی شناخت اور ادراک ہے، ان پر ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے پتہ چلا کہ حکومت نے آرڈر جاری کیے کہ تمام ریٹائرڈ ملازمین جو پنشن لے رہے ہیں کوئی دیگر تنخواہ نہیں لے سکتے، تو صوبہ پنجاب کے خود کو ارسطو سمجھنے والوں نے ایسے لیجنڈ، غیر معمولی ریسرچر اور سائنس دانوں کو بھی اسی نامناسب قانون کا شکار کرنا شروع کر دیا، جو ایک بہت بڑی علمی خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ اربابِ بست و کشاد سے گزارش ہے کہ اہم فیصلے کرتے ہوئے محض دولت پسند وزیروں سے ہی مشاورت نہ کی جائے بلکہ اداروں سے آگاہی رکھنے لوگوں کو بھی اعتماد میں لیا کریں تاکہ اصل صورتحال کا اندازہ ہو سکے۔ مبادا ان اعلیٰ علمی و ادبی لیجنڈز کے حقوق سلب ہو جائیں۔ صوبائی وزرائے تعلیم اور انکے مشیران اس مسئلے کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں اور ان باتوں پر اکتفا نہ کریں جو اعلیٰ تعلیمی افسران بتا رہے ہیں، جو خود تو بڑی بڑی مراعات لے رہے ہیں، نہ صرف مراعات لے رہے ہیں بلکہ خود کو یونیورسٹیوں اور اداروں کی پوری پوری اسٹیٹ کے مالک و مختار سمجھتے ہیں۔ بقول زہیر کنجاہی

رات بکھرے ہوئے ستاروں کو

دن کی باتیں سنا رہا ہوں میں

تازہ ترین