• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد اور بیجنگ کی سدا بہار دوستی اگرچہ ایک مثالیہ ہے اور دونوں ممالک کے باہمی رابطے ہمیشہ ہی اہم اور ثمر آور نتائج کے حامل ہوتے ہیں مگر چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی پاک چین اسٹرٹیجک مذاکرات کے چھٹے دور میں شرکت کیلئے اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ آمد نے خطے میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں خاص اہمیت حاصل کرلی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق فریقین اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستان اور چین کی پائیدار اسٹرٹیجک شراکت داری خطے میں امن و استحکام کیلئے نہایت اہم اور دونوں ممالک کی خوشحالی کیلئے ناگزیر حیثیت کی حامل ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کا یہ موقف نمایاں ہوا کہ خطے کے امن اور استحکام کیلئے مل کر کام کیا جائیگا۔ چین پاکستان راہداری کے دوسرے مرحلے کے آغازکے اشارے بھی اس گفتگو سے مل رہے ہیں ۔ چینی وزیر خارجہ کی گفتگو کا اہم ترین حصہ صدر شی چن پنگ کے اس ویژن کا اعادہ ہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد کا مستقبل مشترکہ ہے۔ مبصرین چینی وزیر خارجہ کے ان جملوں کو خاص اہمیت و معنونیت کا حامل قرار دے رہے ہیں کہ پاکستان کیساتھ تعلقات نئی بلندیوں تک لے جارہے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قومی آزادی، علاقائی سالمیت، خودمختاری کے تحفظ اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں اسلام آباد کی حمایت جاری رہے گی۔ زراعت اور مائننگ میں تعاون جاری رکھنے پر دونوں ملکوں میں اتفاق ہوا ہے جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا معیار بلند کرنے اور اس باب میں پیش قدمی کے واضح اشارے دیئے گئے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر موجود تھے۔ اس ہائی لیول ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف کی بیجنگ کے ساتھ اہم شعبوں میں تعلقات مزید بڑھانے کی خواہش بھی سامنے آئی اور توقع کی جارہی ہے کہ اگلے برس وزیراعظم شہباز شریف ایس سی او اجلاس کے موقع پر بیجنگ جائیں گے تو پاک چین دوستی کی 75ویں سالگرہ نہ صرف جوش و خروش سے منائی جائے گی بلکہ دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کے حوالے سےنئے پہلو اور پیش رفتیں نمایاں ہوں گی۔ پریذیڈنٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران صدر مملکت آصف زرداری نے اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ چین کے ساتھ دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ چینی وزیر خارجہ کے دورے کا یہ وقت دوسرے عوامل کیساتھ اس بنا پر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے پہلے مرحلے میںبنیادی امور (مثلاً بجلی اور سڑکوں سے متعلق کام) بڑی حد تک مکمل ہوچکے ہیں دوسرے لفظوں میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور گوادر بندرگاہ کو تجارت کیلئے فعال بنانے کا کام اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ اُسے وسطی ایشیا کو باقی دنیاسے تجارت کیلئے بھرپور طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔سی پیک کے دوسرے مرحلے میں معیشت اور عوامی بہبود سے براہ راست تعلق رکھنے والے منصوبے بروئے کار لائے جائینگےجن سے لوگوں کی بڑی تعداد کو روزگار ملے گا اور تجارت و صنعت کا پہیہ رواں کرنے میں مدد ملے گی جبکہ پاکستان صنعتی و زرعی انقلاب کی طرف بھی قدم بڑھا رہا ہے۔ اس باب میں جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ سی پیک میں مزید ممالک بھی شمولیت کے خواہشمند ہیں وہاں مئی کے واقعات کے تناظر میں اس منصوبے کی حفاظت، دہشت گردی کے خاتمے اور کسی بھی طالع آزمائی سے نمٹنے کی تدابیر زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہوگی۔

تازہ ترین