میرے آبائی علاقے خوشاب و سرگودھا میں ایک دلچسپ روایت مشہور ہے کہ جنگ عظیم کے دوران انگریز فوجی بھرتی کیلئے لام بندی کیا کرتے تھے۔ کئی دفعہ بھرتی کی تقریب میں انگریز افسر آکر موٹیویشنل (ترغیبی) تقریر بھی کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک تقریب سرگودھا کے مشہور لک قبیلے میں منعقد ہوئی ۔لک قدیم مقامی قبیلہ ہے جس میں دیسی دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔انگریز افسر نے تقریر میں کہا کہ آپ کی محبوب ملکہ جو ہر وقت آپکی فکر میں ہلکان رہتی ہے اس کیخلاف ایک ظالم ہٹلر نے جنگ چھیڑ دی ہے، مہربان ملکہ آپ کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہے مگر ہٹلر اسکے راستے میں رکاوٹ ہے ۔انگریز افسر نےجذبات کی شدّت میںمحبوب ملکہ کی مدد کیلئے لَک قبیلے کے نوجوانوں سے فوج میں بھرتی کی اپیل کی۔ اس موقع پر ایک عمر رسیدہ لَک نے کھڑے ہوکر انگریز افسر سے کہا کہ اگر بات لَکوں پر آ گئی ہے تو میرا مشورہ ہے کہ ملکہ ہٹلر سے معافی مانگ کر صلح کرلے کیونکہ ہم تو لڑ کر ملکہ کو بچا نہیں سکتے۔ اس قصّے کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بات مجھ حقیر پر آگئی ہے تو میں سب سے معافی کا خواستگار ہوں۔
مجھے یہ وہم نہیں کہ میں نطشے کا سپرمین ہوں اور نہ میں اس قابل ہوں کہ اقبال کا شاہین بنوں ،میں تو وہی ذات کا رپورٹر اور میاں محمد بخش کی زبان میں گلیوں کا رُوڑہ کوڑا ہوں۔ میں تو رومی اور بلھے شاہ کی پیروی میں اپنے من اور اپنی ہی انا سے لڑنے میں مصروف ہوں، میرا کلغی والوں سے کیا مقابلہ اور کیا تنازع؟ میں تو خود کو سیاہ کار اور دوسروں کو نیکو کار سمجھتا ہوں ۔ کوئی دوست یا را ہگیر ناراض ہو جائے تو میں خود اس سے معافی مانگ لیتا ہوں میرے سارے دوست گواہ ہیں کہ میںکردہ اور ناکردہ دونوں طرح کی غلطیوں کی معافی مانگنے میں ذرا تامل نہیں کرتا۔
مجھے حالیہ واقعات پر افسوس ہے کہ ایک خبر نگار خود خبر بن گیا، ہمارا نہ یہ کام ہے اور نہ ہی ہمیں یہ زیبا ہے۔ مقتدرہ، اہل سیاست، اہل صحافت سب کا رتبہ مجھ سے کہیں بڑھ کر اور عظیم ترین ہے ،میں خود کو احقر ترین سمجھتا ہوں اور اپنی انا کو مارنے کیلئے کوشاں ہوں ،میرے جیسے ایک بونے کا دیوئوں سے کیا مقابلہ اور کیا مناقشہ۔ میں تو ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی ہوں، مجھ شُودر کا برہمنوں سے کیا تضاد؟ میں ہر ایک ناراض سے جھک کر معافی کا خواستگار ہوں اور تسلیم کرتا ہوں کہ غلطیاں سو فیصد میری ہیں اور سب خوبیاں اُن کی ہیں۔
لیڈیز فرسٹ کے مصداق میری پہلی معافی فضہ علی سے، میرا کیا مقام اور مرتبہ کہ میں انکی کسی بات کو جھٹلائوں انہوں نے مجھے واش روم دھونے والا کہا، سر تسلیم خم ،میں تو خاکروب ہوں اور اسی خطاب پر قانع ہوں۔ فضہ علی سے میری معافی اسلئے بنتی ہے کہ میری حمایت میں چند لوگوں نے فضہ علی کی شان میں گستاخی کی میں ہاتھ جوڑ کر ان سے معذرت خواہ ہوں۔
اسی سلسلے میں عزیزم حماد اظہر نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں چونکہ معافی تلافی کی ہمیشہ حمایت کرتا ہوں تو آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے سیدھی طرح مقتدرہ سے معافی مانگ لوں ،حماد صاحب کے والد میاں اظہر کھرے اور مشفق انسان تھے۔ حماد اظہر لارڈ نذیر کے اسٹوڈنٹ Internee تھے جب میں نے لارڈ نذیر احمد کےساتھ پروگرام ’ایک دن جیو کے ساتھ ‘ کیاتھا۔ وہ عمر میں مجھ سے کہیں چھوٹے ہیں اسلئے انکے صائب مشورے کو مانتے ہوئے میں حماد اظہر سے معافی کا طلب گار ہوں اور میں نے جو بھی غلطیاں کی ہیں ان سب کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں راضی کرنا چاہتا ہوں چاہے مجھے ان کے سامنے جھکنا ہی پڑے۔ فیصل واوڈا صاحب کا میں ذاتی طور پر مداح ہوںوہ بھی فرینڈلی فائرکی زد میں آگئے حالانکہ انہوں نے مجھے ہمیشہ عزت دی، ہمیشہ احترام سے میرا ذکر کیا ۔ اختلاف تو ہوتا رہتا ہے مگر انسانیت اور دوستی زیادہ اہم ہوتی ہے انکو بھی مجھ سے شکایت پیدا ہوئی اس پر بھی معذرت۔
شہباز گل میرے دیرینہ مہربان ہیں میری برادری کے بھی ہیں دو اڑھائی سال سے انہیں میرے کالموں اور رائے سے اختلاف ہے اور وہ آئےروز مجھ پر تنقید کرتے رہتے ہیں، کئی الزامات بھی لگائے مگر آج سے میں اپنا دل صاف کرتے ہوئے انکا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے کبھی بھلایا نہیں ہمیشہ یاد رکھا۔ خدا انہیں ہمیشہ خوش رکھے۔ ان سے بھی معذرت اور معافی۔
تحریک انصاف کے ہر چھوٹے بڑے جو اکثر ناراض رہتے ہیں ان سے معافی کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف نہیں سمجھنا چاہئے اختلاف کو نفرت کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے اختلاف ختم ہو جائے تو معاشرے ڈوب جایا کرتے ہیں۔انکی رائے کا مجھے احترام ہے اور وہ میری غلط آراپر مجھے معاف فرما دیں۔مقطع میں آپڑی ہے سخن گستر انہ بات کے مصداق اگر بات مجھ حقیر پر ہی آکر رک گئی ہے تو میں مقتدرہ سے ہاتھ جوڑ کر اور عمران خان کے پائوں پڑ کر معافی مانگنے کو تیار ہوں، میرا کوئی ذاتی عنا دنہیں اور نہ مجھے معافی مانگنے میں کوئی عار ہے۔سب سے آخر میںاور سب سے اہم معافی جنرل احمد شریف چوہدری صاحب سے کہ انہیں مجھ سے گلہ ہوا حالانکہ نہ میری ایسی کوئی نیت تھی نہ خواہش ۔
مجھ سے اختلاف کرنے والے صحافی بھائیوںمیں سب کا مقام مجھ سے بڑا ہے۔ میں تو ان بڑے ناموں کی خاک کو بھی نہیں چھو سکتا۔ میں خود ذاتی طور پر ان کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اختلاف کرتے ہوئے مجھے یاد رکھا۔ وگرنہ مجھے اہمیت ہی نہ دیتے، ان سب کا احسان ہے سب خوش رہیں اگر کسی کے دل میں میرے رویّے یا کسی فقرے سے رنج پیدا ہوا ہے تو اس کیلئے ان سب سے معذرت اور معافی۔اگرحسد یا مقابلہ بازی وجہ ناراضی ہے تو مجھے اس دوڑ سے باہر سمجھیں۔
آخر میں عرض ہے کہ ذاتی عناد کا احوال تو آپ نے سنا مگر میں اپنی صحافتی انا کو کوشش کے باوجود نہیں مار سکا ،مجھے میری صحافت کرنے دی جائے۔ اہل سیاست اور اہل صحافت میں سے جن کو مجھ سے اختلاف ہےوہ اپنی سیاست اور اپنی صحافت کریں۔ میں نے زندگی بھر کسی دوسرے کی صحافت یا خیالات کے خلاف اصولی اختلاف کے سوا کبھی ذاتی اختلاف نہیں کیا زندگی بھر کسی کا اسکینڈل نہیں بنایا نہ کبھی کسی کے اسکینڈل کو اچھالا نہ بغیر ثبوت کسی پر مالی بدعنوانی کا الزام لگایا، کوشش کی ہے کہ ہر اختلاف کا شائستگی اور صحافتی دائرہ کے اندر رہ کر جواب دیا جائے، اسکے باوجود انسان غلطیوں کا پتلا ہے اگر کہیں غلطی ہوگئی ہو تو اس پر میں ہمیشہ معافی اور معذرت کیلئے تیار رہتا ہوں۔ میں صرف بلھے شاہ کی بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ کسی انسان کا دل نہ توڑا جائے کہ رب دلوں ہی میں تو رہتا ہے۔
سیاست اور اقتدار والوں کی جو مرضی کریں،اختلاف اور وہ بھی شائستگی سے ہم صحافیوں کا حق ہے، اگر اس سے بھی روکا جائے تو معاشرہ یک رنگ اور زوال پذیر ہو جائیگا۔ بھارت کی پاکستان سے شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھارت کے صحافی یک رنگ اور سب مودی کی ہندوتوا سوچ کے حامی تھے جبکہ پاکستان میں رنگا رنگی ہے اسلئے لوگوں نے پاکستان کے صحافیوں کو زیادہ معتبر قرار دیا۔ صحافت معتبر ہوگی تو ملک معتبر رہے گا ،میری معافی حاضر ہے بس ہمیں تھوڑی Spaceچاہئے، دل بڑا کرکے وہ دیتے رہیں.....