• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں تحریری آئین کے برعکس ایک زبانی ’’دستور‘‘ بھی ہے جسے حبیب جالب نے ’’صبح بے نور‘‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ دِقت یہ ہے کہ محولا بالا دستور حالات و واقعات اور شخصیات کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور عام آدمی سمجھ نہیں پاتا کہ آج کل مکتب عشق کا دستور کیا ہے۔ مثلاً قیام پاکستان کے بعد حسین شہید سہروردی زیر عتاب رہے، انہیں غدار قرار دیا گیا، پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان نے ایسے القابات سے نوازا جو یہاں بیان بھی نہیں کئے جاسکتے مگر پھردستور بدلا تو انہیں وزیراعظم بنا دیا گیا۔ قرارداد پاکستان پیش کرنیوالے ’’شیر بنگال‘‘مولوی فضل حق کے بارے میں بتایا گیاکہ وہ محب وطن نہیں رہے مگر 8مارچ 1954ء کو بنگال اسمبلی کے انتخابات میں جگتو فرنٹ نے کامیابی حاصل کی تو مولوی فضل حق وزیراعلیٰ بن گئے۔چند ماہ بعد ہی مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کرکے نہ صرف مولوی فضل حق کی حکومت ختم کردی گئی بلکہ باضابطہ طور پر انہیں غدار قرار دیدیا گیا۔ مگر 1956ء میں پہلا تحریری آئین متعارف ہوا تو اسی ’’غدار‘‘ کو مشرقی پاکستان کا گورنر تعینات کیا گیا۔ زبانی دستور سے متعلق یہ مخمصہ محض شخصیات تک ہی محدود نہیں بلکہ موضوعات کے حوالے سے بھی اسی قسم کے اُلجھائو کا سامنا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی نئے صوبوں کے قیام کی بات قومی سلامتی کیخلاف سازش تصور ہوا کرتی تھی اور عمومی تاثر یہ تھا کہ خاکم بدہن یہ ناہنجار ملک توڑنے کے درپے ہیں۔کبھی کراچی سے اردو بولنے والوں نے الگ صوبے کا مطالبہ کیا تو اسے سندھ کیخلاف سازش قرار دیا گیا ۔ خیبرپختونخوا سے صوبہ ہزارہ کی آوازیں بلند ہوئیں تو انہیں خاموش کردیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے مکینوں نے سرائیکی صوبے کی تجویز پیش کی یا بہاولپور کے لوگوں نے اپنی ریاست بحال کرنے کا موقف دہرایا تو بہت برا منایا گیا۔ مگر پھرنیا دستور نئی حکمت عملی کے ساتھ جلوہ افروز ہوا ۔فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ ان مطالبات کی مخالفت کرنے کے بجائے انہیں سیاسی بندوبست کیلئے استعمال کیا جائے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی پنجاب کے ارکان پارلیمنٹ کو ’’صوبہ جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ منصوبہ کامیاب رہا ،2018ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن ایک کروڑ ملازمتوں اور50لاکھ گھروں کی طرح صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا وعدہ بھی وفا نہ ہوا۔اب گزشتہ چند روز سے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بحث کو فروغ دینےوالی ہوائوں کا ایک نیا نظام وطن عزیز میں داخل ہوا ہے اور بونداباندی سے شروع ہونیوالا یہ سلسلہ اب موسلا دھار بارشوں میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔کہاں وہ حالات کہ ایک صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر ہنگامہ ہو جاتا تھا اور کہاں یہ نوبت کہ اب ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ نہایت شد ومد اور کروفر کے ساتھ یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل نئے صوبوں کے قیام میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضمن میں بھارت سمیت کئی ہمسایہ ممالک کی مثالیں دی جارہی ہیں۔ بھارت کے برعکس پاکستان چونکہ فیڈریشن ہے ،اسلئے ہمارے ہاں سرحدیں تبدیل کرنا آسان نہیں ۔وفاق کے زیر انتظام کسی بھی اکائی کو تقسیم کرنے کیلئے متعلقہ صوبے کی پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت درکار ہے اور اسکے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے یہ مرحلہ شوق طے کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کی حد تک یہ ہدف حاصل کر بھی لیا جائے تو سندھ اور خیبرپختونخوا میں کیا ہوگا؟ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے یہ تجویز زیر غور ہے کہ کیوںنہ آئینی ترمیم کے ذریعے اس جھمیلے کو ہی ختم کردیا جائے۔27ویں آئینی ترمیم جسکے بارے میں بہت قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ،اس میں دیگر نکات کے علاوہ یہ تبدیلی بھی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں اس ضمن میں بھارت کی مثال تودی جاتی ہے مگر یہ جاننے کا تردد نہیں کیا جاتا کہ وہاں 17سے 28ریاستوں تک کا سفر کیسے طے ہوا؟ بھارت میں لسانی بنیادوں پر صوبوں کے قیام کی جدوجہد کئی برس پر محیط ہے۔تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد یہ مطالبات ہونے لگے اور انکے حق میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیاجس کے نتیجے میں 1948ء میں جسٹس ایس کے Dharکی سربراہی میں دھار کمیشن بنایاگیا ۔کمیشن نے تجویز دی کہ لسانی یا علاقائی بنیادوں پر تقسیم کے بجائے انتظامی بنیادوں پرنئے صوبے بنائے جائیں۔ لیکن جب عوامی مطالبات زور پکڑتے چلے گئے تو بھارتی حکومت لسانی بنیادوں پر صوبوں کو تقسیم کرنے پر مجبور ہوگئی اور 1953ء میں آندھرا پردیش کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔تیلگو زبان بولنےوالوں کے مطالبے پر یہ دروازہ کھلا اور پھر 1956ء میں States Reorganisation Actکے ذریعے بھارتی ریاستوں کا نقشہ یکسر تبدیل کردیا گیا۔نئے صوبوں کے قیام سے متعلق اس وقت جو تجویز زیر گردش ہے ،اس کے مطابق اگر ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیا جاتا ہے تو اسکے نتیجے میں 32نئی ہائیکورٹس کا قیام عمل میں آئے گا، اتنی ہی تعداد میں صوبائی اسمبلیاں، وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس اور اسی تناسب سے صوبائی وزراء بنائے جائینگے۔ اشرافیہ کی تو لاٹری نکل آئے گی ،افسر شاہی کو نئے عہدے ملیں گے، سیاستدانوں کو نئے سنگھاسن میسر آئیں گے ،اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی بندوبست میں آسانی ہوگی مگر عوام کے ہاتھ کیا آئے گا؟ اس نئی اشرافیہ کو جھنڈے والی گاڑیاں ،پرتعیش دفاتر، تنخواہیں ،مراعات اور دیگر آسائشات فراہم کرنے کیلئے مزید ٹیکس دینا پڑیگا۔ بظاہر تو یہ منطق پیش کی جارہی ہے کہ نئے صوبوں کے قیام سے وسائل کی تقسیم بہتر ہوگی اور بجٹ کو مقامی سطح پر بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے گالیکن میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔اگر عوام کی فلاح و بہبود ہی مقصود ہے تو یہ کام مقامی حکومتوں کو مضبوط کرکے وسائل اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین