کئی دنوں سے سندھ اور اسکی ثقافت ایک انتہائی غیر منصفانہ جارحیت کا شکار بنی ہوئی ہے‘ دن رات سندھ پر عجیب و غریب الزامات لگائے جارہے ہیں حالانکہ سندھ نے تو آج تک کسی بھی حلقے یا علاقے کیخلاف کبھی اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کیا ۔سندھ تو نام ہی امن اور آشتی کا ہے‘ اس قسم کے الزامات زیادہ تر ہندوستان سے ہجرت کرکےآئے کچھ ہمارے ’’مہربان‘‘ لگا رہے ہیں حالانکہ جب یہ مہربان ہندوستان سے پاکستان کے صوبہ سندھ آئےتوسندھ کے عوام نےان کیلئے کوئی مشکلات پیدا نہیں کیں بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں ہندوئوں کی طرف سے چھوڑے گئے مکانات بڑی خوشی سے ان کے حوالے کئے‘ یہ مہربان زیادہ تر سندھ کے شہروں خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد آکر آباد ہوئے مگر یہ مہربان اندرون سندھ کے شہروںکے علاوہ وہاں کے چھوٹے بڑے گائوں میں بھی آباد ہوئے اور اب تک وہاں آباد ہیں‘ بعد میں ہمارے ان ’’مہربانوں‘‘ نے ایک لسانی تنظیم بنائی جس کا نشانہ سندھ بنامگر ایک بار اس تنظیم کے سربراہ ،جو اس وقت الطاف حسین تھے ،کے ساتھ میری بڑی دلچسپ گفتگو ہوئی‘ ہوا یوں کہ الطاف حسین حیدرآباد آئے اور ایک دو جلسوں سےخطاب کیا۔ اس کے بعد پریس کانفرنس کیلئے حیدرآباد پریس کلب آئے‘ اس وقت میں کراچی کے ایک انگریزی اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ کے ساتھ منسلک تھا مگر چونکہ میرا گھر حیدرآباد میں تھا تو اس دن میں آیا ہوا تھا اور جب بانی ایم کیو ایم حیدرآباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنیوالے تھے اس وقت میں بھی وہاں موجودتھا ۔ جب انہوںنے اپنی پریس کانفرنس شروع کی تو کچھ صحافی بار بار ان سے سوال کرتے رہے جسکے نتیجے میں وہ اپنی بات نہیں کر پا رہے تھے یہ سب دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوپایا اور میں نے ان صحافیوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ’ آپ جو کچھ کررہے ہیں ، مناسب نہیں ہے‘ یہ صحافت کی بنیادی اخلاقیات کے منافی ہے ۔اگر کوئی صاحب پریس کلب میں پریس کانفرنس کی فیس بھی ادا کرچکے ہیں اور اب وہ اپنی بات شروع کررہے ہیں تو اس مرحلے پر ہم صحافی کسی قسم کی مداخلت نہیں کرسکتے۔ فی الحال اطمینان سے سنیں جو یہ صاحب کہہ رہےہیں‘ جب وہ اپنی بات مکمل کرلیں تو پھر صحافی جو چاہیں سوال کرسکتے ہیں۔ میری اس بات پر ہمارے صحافی بھائیوں نے یہ سلسلہ بند کردیا‘ اس کے بعد انہوںنے اپنی بات مکمل کی اور پھر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ پریس کانفرنس کے بعد چائے وغیرہ کا دور ہوا‘ میں بھی ابھی پریس کلب کے اس ہال میں بیٹھا ہوا تھا‘ اسی دوران الطاف حسین پریس کانفرنس ختم کرکے جانے لگے مگر وہ دروازے سے باہر جانے کی بجائے سیدھے میرے پاس آئے۔ ان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں احتراماً کھڑا ہوگیا اور میرے پاس پہنچ کر انہوںنے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مغل صاحب آج آپ ڈنر پر میرے مہمان ہیں‘ میں نے شکریہ ادا کیا مگر معذرت کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے ۔ انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر گزارش کی کہ میری گاڑی رات کو آٹھ بجے کے بعد پریس کلب آپ کو لینے آئے گی‘ میں آپ کا انتظار کروں گا۔ رات انکی گاڑی اور میں اپنے دو اور سینئر صحافی بھی ساتھ لے گیا وہاں پہنچ کر کچھ وقت تبادلہ خیال ہوا‘ اس کے بعد ڈنر ہوا‘ کھانا کھانے کے بعد ایک بار پھر ہمارے درمیان تبادلہ خیال شروع ہوگیا‘ ایک مرحلے پر میں نے ان کو مخاطب کر کےکہا کہ الطاف صاحب اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں اپنی طرف سے آپ کی پارٹی کے بارے میں ایک تجویز دوں‘ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں‘ آپ بتائیں آپ کی کیا تجویز ہے‘ میں نے کچھ وقت رک کر کہا کہ آپ نے اپنی پارٹی کا نام ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ رکھا ہے آپ کے خیال میں اس قسم کے نام کی پارٹی کے ذریعے آپ جو سیاست کریں گے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے یا منفی؟ میری بات سن کر وہ کچھ وقت کیلئے خاموش ہوگئے مگر بعد میں انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں آپ کی تجویز کو قبول کرتا ہوں میں اپنی پارٹی کا نام تبدیل کروں گا‘ اس کے کچھ عرصے کے بعد اخبارات میں ان کا اعلان شائع ہوا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کا نام تبدیل کردیا ہے اب پارٹی کا نام مہاجر قومی موومنٹ نہیں متحدہ قومی موومنٹ ہوگا‘ اس طرح سندھ کی سیاست میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آنا شروع ہوئی مگر شاید ایم کیو ایم کے کچھ گروہوں کو نام کی یہ تبدیلی قبول نہ ہوئی‘ ان میں سے کچھ رہنما سیاست کو ایک بار پھر منفی رخ پر لے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے خلاف تو نا آشنا باتیں ہونے لگی ہیں مگر سندھ کی ثقافت کو بھی نہیں بخشا جارہا ‘ خاص طور پر سندھ کی ایک اہم ثقافتی شناخت کیخلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔