نواب اکبر بگٹی کے سانحہ ارتحال کو 19برس بیت گئے۔ 26 اگست 2006ء کو ایک فوجی آپریشن کے دوران پراسرار انداز میں نواب اکبر بگٹی کی موت نے بلوچستان کو ایک ایسے آتش فشاں میں بدل دیا جو مسلسل سلگ رہا ہے۔ نواب اکبر بگٹی جنہوں نے کوئٹہ کے شاہی جرگہ میں قوم پرست بلوچ رہنمائوں کے برعکس قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، انہوں نے ریاست کیخلاف بندوق کیوں اُٹھائی ،اس سوال کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ جب پاکستان میں پہلی بار مارشل لا نافذ کرکے وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت ختم کی گئی تو نواب اکبر بگٹی وزیر مملکت برائے دفاع کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے۔ سردار شیر باز خان مزاری جو نواب اکبر بگٹی کے بہنوئی بھی تھے، وہ اپنی خود نوشت A journey to disillionmentمیں لکھتے ہیں کہ رات کو ساڑھے گیارہ بجے نواب اکبر بگٹی نے شیر باز خان مزاری کو ٹیلیفون کرکے بتایا کہ کچھ گڑ بڑہے ہر طرف فوجی ٹرک نظر آرہے ہیں۔شیر باز نے ہنستے ہوئے کہا، تم وزیر دفاع ہو اور تمہیں یہ نہیں پتہ کہ تمہارے لوگ کیا کر رہے ہیں؟ چونکہ وہ دونوں بلوچی زبان میں بات کر رہے تھے چنانچہ ٹیلیفون ٹیپ کرنیوالے نے ٹوک کرکہا، اردو یا انگریزی میں بات کرو۔ نواب اکبر بگٹی نے دھاڑتے ہوئے کہا ،تمہیں پتہ نہیں میں وزیر دفاع ہوں؟ ٹیلیفون ٹیپ کرنے والے اہلکار نے کہا، آپ کو پتہ نہیں کہ مارشل لاء آچکا ہے اور اب آپ وزیر نہیں رہے۔ ایوب خان کے دورِ حکومت میں ہی بلوچ سرزمین پر نفرتوں کی ایسی فصل کاشت کی گئی جو ہمیں آج تک کاٹنا پڑ رہی ہے۔ مارشل لا حکام نے بگٹی قبیلے کے نواب اور سابق وزیر دفاع نواب اکبر بگٹی کو قتل کے مقدمہ میں گرفتار کرکے اسپیشل ملٹری کورٹ میں ان کا ٹرائل کیا اور پھر سزائے موت سنا دی۔ ڈیڑھ سال بعد سردار شیر باز خان مزاری ذوالفقار علی بھٹو کی مداخلت سے اکبر بگٹی کو رہا کروانے میں تو کامیاب ہوگئے مگر حکومت نے انہیں تمنداری سے محروم کرکے اپنے من پسند شخص کو بگٹی قبیلے کا سردار تعینات کردیا۔ اکبر بگٹی نے جیل سے باہر آتے ہی ایوب خان کو للکارنا شروع کردیا۔ جولائی 1962ء میں ایوب خان نے علانیہ طور پر متنبہ کیا کہ اکبر بگٹی کی سزا ابھی ختم نہیں ہوئی تو اس پر دوبارہ نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ 22 اگست کو اکبر بگٹی ان احکامات کے تحت پھر گرفتار کرلیے گئے کہ انہیں اچھے برتائو کی یقین دہانی پر رہا کیا گیا تھا جسکی انہوں نے پاس داری نہیں کی۔ نواب اکبر بگٹی کی گرفتاری کیخلاف سردار عطااللہ مینگل نے لیاری کے ککری گرائونڈ کے جلسے میں احتجاج کیا تو انہیں بھی گرفتار کرکے بغاوت کا مقدمہ بنادیا گیا۔ سردارعطااللہ مینگل کے ساتھ بھی وہی واردات ہوئی، انہیں قبیلے کی سرداری سے ہٹا کر ایک کٹھ پتلی کو تمن دار بنا دیا گیا۔ جب وہ شخص قبیلے کے اشتعال کا شکار ہوکر مارا گیا تو اسکے قتل کا مقدمہ درج کرکے سردار عطااللہ مینگل اور انکے بوڑھے والد کو مستقل حراست میں رکھنے کا بندوبست کرلیا گیا۔اس دوران غوث بخش بزنجو سمیت کئی بلوچ رہنما گرفتار ہوئے۔جولائی 1963ء میں نواب خیر بخش مری کو گرفتار کرکے انہیں بھی تمنداری کے منصب سے ہٹا دیا گیا۔
اے کے بروہی اکبر بگٹی کے استاد تھے، شیر باز مزاری نے ان کا مقدمہ لڑنے کیلئے اے کے بروہی سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ اکبر بگٹی کا مقدمہ ضرور لڑیں گے۔ لیکن دو دن بعد اے کے بروہی نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں، انہیں دہلی میں پاکستان کا ہائی کمشنر بنا کر بھیج دیا گیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بنگالیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش میں سرفہرست شیر باز مزاری اور اکبر بگٹی تھے۔ اکبر بگٹی تو شیخ مجیب سے اظہار یکجہتی کیلئے ڈھاکہ بھی گئے مگر پاکستان کو ٹوٹنے سے نہ بچایا جاسکا۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد تین صوبوں میں تو فوری طور پر گورنر لگا دیئے۔ بلوچستان میں شراکت اقتدار کا فارمولا طے کرنے کیلئے دوبڑے قبائلی سرداروں نواب خیر بخش مری اور سردار عطااللہ مینگل کو اسلام آباد بلایا گیا مگر نواب اکبر بگٹی کو شاید اسلیے نظر انداز کر دیا گیا کہ انہوں نے شیخ مجیب سے اظہار یکجہتی اور بھٹو پر تنقید کی تھی۔ اکبر بگٹی نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کوئٹہ میں جلوس نکالا تو ’’بھٹو مردہ باد‘‘ اروڑا زندہ باز ‘‘ کے نعرے لگ گئے۔ اس پر اسلام آباد میں بہت برا منایا گیا۔ نواب اکبر بگٹی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آئے تو حالات بدل چکے تھے اور بھٹو اپنے حریف کو حلیف بنانےکیلئے تیار تھے۔ 10 فروری 1973ء کو عراقی سفارتخانے سے اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ پکڑے جانے کے بعد بھٹو نے 15 فروری کو بلوچستان حکومت کو گھر بھیج دیا اور صوبے میں گورنر راج لگا کر نواب اکبر بگٹی کو گورنر بلوچستان تعینات کردیا۔ بعد ازاں بھٹو سے اختلافات کے باعث نواب اکبر بگٹی نے استعفیٰ دے دیا۔ بینظیر کے پہلے دورِ حکومت میں وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے۔ پرویز مشرف کے دور میں گیس کی رائلٹی اور ایک خاتون سے مبینہ جنسی زیادتی کے الزام سے پیدا ہونے والی صورتحال نے نواب اکبر بگٹی کو مزاحمت کی طرف دھکیل دیا۔ مفاہمت اور مصالحت سے مسائل کو حل کیا جاسکتا تھا لیکن مشرف کے اس جملے نے بات چیت کے دورازے بند کردیئے کہ ’’انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کس چیز سے ہٹ ہوئے ہیں۔‘‘