• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بچپن کے ایک دوست ہیں، کُکُو بھائی، جو بچپن میں ہی ٹھہرے ہوئے ہیں، انکا مزاج تنوع پسند تھا، آج بھی ویسا ہی ہے، مگر تنوع کا مفہوم وہ آج بھی وہی سمجھتے ہیں جو نصف صدی پہلے سمجھتے تھے، یعنی کبھی ریش مبارک سر سید احمد خاں کی ہم سری کر رہی ہے تو کبھی مُونڈ دی گئی، اور درمیان میں کچھ روز فرنچ کٹ پر بھی پڑاؤ کیا گیا، کبھی ڈاڑھی مغلیہ ہو گئی تو کبھی رنجیت سنگھ کی پیروی کی گئی، کبھی گیسو دراز ہو گئے کبھی سر مُنڈوا لیا، کبھی قلمیں ایلوس پریسلے جیسی گھمبیر ہو گئیں تو کبھی غائب، مونچھوں نے کبھی ہٹلر کی یاد تازہ کی تو کبھی مہدی حسن خان صاحب کی، الغرض’’جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے۔‘‘اب دوسری طرف سے دیکھیں تو انتہائی’’ثابت قدم‘‘ نظر آتے ہیں۔ جملہ عوارض کا علاج اب بھی حکیم صاحب کی پُڑی سے کرتے ہیں، منتیں ماننے اب بھی اُسی آستانے پر جاتے ہیں جہاں انکے والد صاحب جایا کرتے تھے، بچیوں کو پڑھانے وہی مدرس گھر تشریف لاتے ہیں جو بہنوں کیلئے آیا کرتے تھے۔ بلا شبہ، کُکُو بھائی کا تنوع اور اِنجماد اپنی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ کُکُو بھائی کی سوانح حیات مطالعہ پاکستان کا حصہ ہونی چاہیے، کیوں کہ ملکِ عزیز اور کُکُو بھائی کی ایک ہی کہانی ہے، پاکستان بھی اپنے روئے مبارک پر کبھی رونق ریش برپا کرتا ہے کبھی ویران کر دیتا ہے، کبھی سبیل سجاتا ہے کبھی سنسان کر دیتا ہے، یعنی تنوع ہی تنوع۔ مگر معنوی طور پر یہ ملک منجمد ہے، یکسر ساکت، سر تا پا بے حس و حرکت۔ گردشِ رنگِ چمن پر نگاہ ڈالیں۔ ملک دس سال اپنے براہیم کی تلاش میں رہتا ہے، یعنی اپنے آئین کی کھوج میں، آخر کار آئین بنتا ہے، دو سال بعد توڑ دیا جاتا ہے، اس دوران گورنر جنرل اور وزیر اعظم اختیارات کی رسہ کشی جاری رکھے ہوئے ہیں، یوں سمجھ لیں پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام کے درمیان کھینچا تانی چل رہی ہے، 1956ء کے آئین نے پارلیمانی نظام دیا اور دو سال بعد ہی یہ ڈاڑھی منڈوا دی گئی۔ آئین بننے میں دو رکاوٹیں درپیش رہیں، ایک تو یہ کہ آئین کو کلین شیو ہونا چاہئے یا با ریش، یعنی اسکی اساس قائداعظم کی 11اگست کی تقریر ہو گی یا قرار داد مقاصد، اور دوسرا مسئلہ تھا ’’مضبوط مرکز‘‘ یا’’مضبوط صوبے‘‘، ون یونٹ اسی مسئلے کے حل کیلئے بنایا گیا اور پھر توڑ دیا گیا، یعنی کبھی ہٹلر کبھی مہدی حسن خان ۔ کہانی یونہی آگے بڑھتی گئی، ایوب خان گئے تو یحییٰ خان بھی جوتوں سمیت معبد ِآئین میں گھس آئے، 1962ء کا آئین غیر معتبر ہی سہی مگر ایک بار پھر آئین ٹوٹا اور برہنہ مارشل لا آ گیا، ادھر مضبوط مرکز کی خواہش کا انجام یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان علاحدہ ہو گیا۔ طویل مارشل لاء کے بعد بھٹو صاحب آئے، 73 کا آئین آیا اور کاغذوں میں صوبائی خود مختاری آئی، پھر بھٹو صاحب نے صوبائی حکومت توڑی اور مخالف صوبائی سیاسی عناصر پر پابندی لگا دی، اور صوبائی حقوق چھن گئے۔ بھٹو صاحب حکومت میں آئے تو انہوں نے چہرے پر مارکس کی ڈاڑھی سجا رکھی تھی، بعد میں جب مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے اُسترے تیز کیے تو بھٹو صاحب نے مارکسی ڈاڑھی پر مدنی مہندی لگا کر جان بچانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ بھٹو صاحب اور جمہوریت گئی تو ضیاءالحق اور مارشل لا آ گیا، یعنی اورنگ زیب عالمگیر والی ڈاڑھی آگئی، یعنی سوٹ گئے اور عربوں والی ثوب آ گئی، صوبوں پر بم باریاں جاری رہیں اور جمہوریت کو اسلامی نفسیات سے متصادم قرار دیا گیا، اور پھر آم پھٹتے ہیں اور اندر سے جمہوریت کی گٹھلی برآمد ہوتی ہے۔ بوریت کے ڈر سے یہ کہانی یہیں روکے لیتے ہیں، اس کہانی کے سب موڑ سراب ہیں، سب نشیب و فراز دھوکا ہیں۔ یہ کہانی نئے صوبوں کی’’تازہ‘‘ بحث سے یاد آئی۔ سنتے ہیں کہ صوبے بہت بڑے ہو گئے ہیں اور انتظامی طور پر غیر موثر ہو چکے ہیں، لہٰذا صوبوں کی تعداد بڑھا کر اختیارات و وسائل مقامی سطح پر منتقل کیے جانا ہی اس کا واحد حل ہے تاکہ حکومت عام آدمی کے دروازے کے قریب آ جائے۔ یہ آدھا سچ ہے۔ مرض کی تشخیص درست ہے، مگر نئے صوبوں کو واحد علاج قرار دینا نادانی (یا چالاکی )ہے۔ دنیا کی جمہوریتوں نے مدت ہوئی توانا مقامی حکومتوں کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکال لیا تھا، بھارت میں اتر پردیش کی آبادی 25 کروڑ ہے، بہار اور مہاراشٹر کی آبادی بھی پنجاب سے زیادہ ہے، مگر وہاں مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہے، اور اچھا خاصہ چل رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے اختیارات و وسائل صوبوں کے پاس آئے اور پھر آگے نچلی سطح پر جانے تھے، جو نہیں گئے۔ اس بات کا نئے صوبوں سے کیا تعلق ہے؟ آج کل یہ آوازیں بھی گونج رہی ہیں کہ اٹھارویں ترمیم سے مرکز کے وسائل بہت سکڑ گئے ہیں لہٰذا ایک مزید آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ یعنی پھر مراجعت۔ اور پھر صدارتی نظام کا شوشہ بھی سننے میں آتا ہی رہتا ہے۔ آپ ڈاڑھی رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں، خط بنوانا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ گھنیری مونچھیں رکھنا چاہتے ہیں یا مہین، قلمیں قلم کرنا چاہتے ہیں یا انہیں نشوونما دینے کی آرزو رکھتے ہیں، جو چاہتے ہیں کیجیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑئیگا۔ اصل سوال کی طرف چلیے جو ہمیں پہلے دن سے درپیش ہے، اس ملک پر حق حکمرانی کس کا ہے، عوام کا یا اشرافیہ کا؟ اس ملک کے وسائل کس کے تصرف میں ہونا چاہئیں، عوام یا اشرافیہ؟ پاکستان کی کہانی کا مرکزی کردار عام آدمی ہے یا اشرافیہ؟ ان سوالوں کا جواب دیجیے اور پھر خواہ 12صوبے بنائیں یا 120، ثوب پہنیں یا سوٹ ٹائی لگائیں۔چلتے چلتے بتاتا چلوں کہ پچھلے ہفتے کُکُو بھائی کا دیدار ہوا تو انہوں نے ٹِنڈکروا رکھی تھے۔ ملتے ہی داد طلب لہجے میں پوچھنے لگے’’کیسا چینج مارا ہے بھائی نے؟‘‘

تازہ ترین