عہد حاضر جارحیت ومبارزت کا نہیں بلکہ صرف اور صرف معاونت و تجارت کا ہے ،اس پیرائے میں دیکھا جائے تو دنیا کا کوئی بھی ملک یک و تنہا ترقی کرنا تو دور کی بات اپنے ملکی امور تک بہ حسن و خوبی سرانجام نہیں دے سکتا۔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسند اقتدار سنبھالی تو انہوں نےامریکی معاشی مضبوطی کیلئے ان تمام ممالک پر ٹیرف عائد کردیا جو اس سے تجارت کرتے ہیں ،یہ ٹیرف بھارت پر 50فیصد عائد کیا گیا ۔دوسری طرف پاکستان کے ہاتھوں جنگ میں شکست کھانے کے بعدامریکہ کی توجہ چین اور مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر مرکوزہو گئی۔بھارت نے ٹرمپ کےجنگ بندی کےاعلان کو تسلیم نہ کیا توٹرمپ کی ناراضی اس لیے بڑھ گئی کہ خود بھارت نے جنگ بندی کیلئے ان سے درخواست کی تھی۔اب بھارت اور مودی کوایک اوردھچکا لگا ہےکہ ٹرمپ نے 2025ءکے کوآڈ سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئےبھارت کا دورہ منسوخ کر دیا ہے ۔مذکورہ اجلاس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے رہنما شریک ہونا تھے۔امریکی میڈیاکے مطابق فیصلہ انتہائی مصروف گھریلو شیڈول اور پالیسی ترجیحات پر کیا گیا جبکہ ایک امریکی اخبار کے مطابق یہ دورہ بھارت امریکہ تجارتی کشیدگی کے تناظر میںکیا گیا۔بھارت اگر پہلگام سانحہ کے بعد پاکستان کی بات مان لیتا اور یوں جنگ آزما نہ ہوتا تو شائد حالات مختلف ہوتے لیکن مودی اب تک اپنی خفت مٹانے کیلئے جنگ کی باتیں کر رہے ہیں،بھارت کے سنجیدہ حلقوں کو چاہیے کہ مودی کو باور کرائیں کہ جنگ سے کسی کو بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اگر کچھ حاصل ہو گا تو وہ محض اچھی ہمسائیگی اور بہتر اقتصادی و تجارتی تعلقات سے ۔بھارت اپنی عالمی تنہائی کے خاتمےکیلئے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے کہ یہی دونوں ممالک اور خطے کے مفاد میں ہے ۔