• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلاب سے بچنا ہے تو دریائوں پر بند باندھنے کے بجائے عقل و خرد کے پشتوں پر حماقتوں کے شگاف پُر کرنا ہوں گے۔

ہمارے ہاں مرض کی تشخیص اور موثر علاج کے بجائے محض وقتی نوعیت کا چھٹکارہ حاصل کرنیکی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً بارشیں ہوں یا دریائوں میں طغیانی آئے ،بزعم خود آبی ماہرین خود ترحمی کے انداز میں پند و نصائح کی پٹاری کھول کر سرزنش کرنے لگتے ہیں کہ ڈیم بنائے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔بالخصوص کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر پر لعن طعن کی جاتی ہے ۔آبی ذخائر کی اہمیت اپنی جگہ مگر کوئی عصر حاضر کے ان سقراطوں اور بقراطوں سے پوچھے کہ راوی ،چناب اور ستلج کا پانی کالا باغ ڈیم میں کیسے لے جایا جاسکتا ہے؟

سیلابی پانی کو کاشتکاری اور دیگر مقاصد کیلئے تو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اسے ڈیم میں لیجانے کی غلطی کی جائے تو وہاں ریت، مٹی اور پتھر جمع ہو جانے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی ختم ہو جائیگی۔ پاکستان میں لگ بھگ 150ڈیم ہیں جبکہ بھارت نے تقریباً6000آبی ذخائر بنا رکھے ہیں۔ تکلف برطرف ،اگر ڈیم کے ذریعے پانی روکا جاسکتا تو بھارت کو اسپل ویز یعنی خارجی دروازے کھول کر یہ پانی آبی گزر گاہوں کی طرف کیوں بھیجنا پڑتا؟

تلخ حقیقت یہ ہے کہ پانی کو ایک مخصوص حد تک روک کر استعمال تو کیا جاسکتا ہے ہمیشہ کیلئے مگرقید نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آزاد پنچھی ہے، بیراج بنا کر ،نہریں نکال کر،بند باندھ کر اور ڈیم تعمیر کرکے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر اس کی زمینوں پر قبضہ کرکے اسے موت کے گھاٹ اُتارنے کی کوشش کریں گے تو یہ آپ کیلئے عرصہ حیات تنگ کر دے گا۔

خیبر پختونخوا میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنیوالا سیلاب ہو یا پھر پنجاب کے دریائوں میں طغیانی کے باعث ہونیوالی تباہی و بربادی، اس کا سبب ایک ہی ہے۔ دریائوں کی گزر گاہوں پر قبضہ کرکے پانی کے فطری بہائو میں رکاوٹ بننا۔ ہمارے ہاں قبضہ مافیا بہت طاقتور ہے ،قانون اسکے گھر کی باندی ہے۔ سیاستدان ہوں، بیوروکریسی ہو، عدلیہ یا پھر میڈیا سب انکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ دریا کنارے ہوٹل کھولنے یا پھر ہائوسنگ سوسائٹی بنانے کیلئے متعلقہ محکموں سے اجازت حاصل کرنا ہرگز دشوار نہیں۔

نالوں کو تنگ کرکے ، انکا راستہ تبدیل کرکے یامکمل طور پر بند کرکے کثیرالمنزلہ کمرشل پلازے تعمیر کرلئے جاتے ہیں۔ کاغذی کارروائی مکمل کرنا مشکل نہیں۔ پٹواری اور تحصیلدار زمین کی ملکیتی دستاویزات تیار کرکے دے دیتے ہیں۔ یوں زمینوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے چند ہی برس میں ملک کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگتے ہیں۔

وہ سوچتے ہیں کہ دریا خشک ہوگیا ہے، اب تو یہ سیوریج کا نالہ بن چکا ہے ،پانی میں اب دم خم نہیں رہا، یہ ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ دریائوں کی زمینوں کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔ دریا اس جبر و ستم پر کچھ نہیں کہتا،خاموش رہتا ہے کہ پانی کی یہی سرشت ہے۔ آپ اسکے راستے میں رکاوٹ کھڑی کریں، یہ تصادم سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنا راستہ بدل کر جانیکی کوشش کریگا۔ جب سب راہیں مسدود ہوجائیں گی تو یہ اپنی طاقت مجتمع کرکے سطح آب بلند ہونے کا انتظار کرے گا۔ آپ فصیلیں اونچی کرتے رہیں گے ،یہ اپنی لہریں سمیٹتا چلا جائے گا اور پھر ایک وقت آئے گا جب یہ پانی سیلاب کا روپ دھار کر سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا لے جائے گا۔دریائوں کی منتقم مزاجی سے متعلق کئی کہاوتیں مشہور ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ اپنا راستہ کبھی نہیں بھولتا۔ کتنے ہی عشرے کیوں نہ بیت جائیں ،یہ اپنا حق واپس لینے ضرور آتا ہے۔ جب دریا بپھر جاتے ہیں ،طغیانی کے ذریعے آبادیوں پر قہر ڈھاتے ہیں تو آبی گزر گاہوں پر تعمیرات کرنے والے چلاتے ہیں ،اپنے ملکیتی کاغذات دکھاتے ہیں، بتاتے ہیں کہ انکے پاس تمام متعلقہ اداروں کے اجازت نامے موجود ہیں مگر دریائوں کا اپنا قانون اور ضابطہ ہے ،وہ ان جعلی دستاویزات کو نہیں مانتے۔

مولانا رومی نے کہا تھا، دریا کو روکنے کی کوشش نہ کرو،اس کے ساتھ بہنا شروع کرو گے تو ساحل ملے گا۔ اسی طرح ایک چینی کہاوت ہے ،پانی نرم ہے مگر وقت آنے پر یہ چٹان کو بھی کاٹ دیتا ہے۔ پانی کو ہلکا نہ لیں، دریائوں کو کمزور نہ سمجھیں ۔انہیں اپنا دشمن نہیں بلکہ دوست بنائیں۔ یہ دریا زندگی کی علامت ہیں ،انہیں فنا کے گھاٹ اُتار دینے کے بعد دنیا میں زندگی کا تصور باقی نہیں رہے گا۔اگر آپ اس مسئلے کو جڑ سے ختم نہیں کریں گے، ان اسباب کا تدارک نہیں کریں گے جو تباہی و بربادی لاتے ہیں تو سیلاب آتے رہیں گے۔دریائوں کے غیظ و غضب سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، آپ ان کے راستے میں نہ آئیں ،آپ ان کے ہاں دراندازی کی کوشش نہ کریں، وہ بھی بن بلائے آپ کی طرف نہیں آئیں گے۔

آپ چاہیں تو حالتِ انکار میں برضا و رغبت مست الست رہیں ،سیلا ب کے باعث ہورہی تباہی وبربادی کو دشمن کی سازش اور آبی جارحیت کا نام دیکر اپنی نااہلی ،غیر ذمہ داری اور غفلت پر پردہ پڑے رہنے دیں ۔یہ سوچ کر لمبی تان کر سوجائیں کہ جو ہونا تھا، وہ ہوگیا ،اب دوبارہ سیلاب نجانے کب آئے ؟موسمیاتی تبدیلوں کو محض فسانہ سمجھ کر نظر انداز کردیں ۔لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنماجناب عابد شیر علی کا فرمان عالیشان ہے کہ 1988ء میں بڑا سیلاب آیا تھا تو وزیراعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف متاثرین کے درمیان جا پہنچے اور گھروں کی تعمیر نو میں حصہ لیا تھا۔37برس بعد ان کی بیٹی صوبے کی چیف ایگزیکٹو کے طور پر سیلابی پانی کے اندر جا کر صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔یہ ایک وراثت (Legacy)ہے جس نے ایک نسل سے دوسری نسل تک کا سفرمکمل کیا ہے۔جان کی امان پائوں تو عرض کروں، یہ کیسی وراثت ہے جو سیلاب کا سدباب نہیں کرتی ،محض ڈوبنے والوں کو بچانے کی تدبیر کرتی ہے۔متاثرین کی دلجوئی اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرنا اچھی بات ہے مگر ہم ایسی وراثت چھوڑ کر کیوں نہیں جاتے کہ یہ آخری سیلاب تھا ،اس کے بعد عوام کو ایسی تباہ کاری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟

تازہ ترین