• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ابھی 2022 میں سندھ میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے پاکستان کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے اور آنے والے دنوں میں سندھ بھی اس سے محفوظ نہیں ۔ حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ پنجاب ہے جسکے کئی اضلاع میں سیلاب کے نتیجے میں مجموعی طور پر 800 سے زائد افراد جاں بحق، لاکھوں بے گھر، 7 ہزار سے زائد مکانات تباہ، لاکھوں ایکڑ پر زیر کاشت فصلیں زیر آب اور 6 ہزار سے زائد مال مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ یہ صورتحال صرف ایک قدرتی آفت یا ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس تباہی میں بھارت کی آبی جارحیت نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارت نے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اچانک لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ کر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی جس سے پاکستان میں سیلاب کی شدت کئی گنا بڑھ گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پانیوالے سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو جبکہ دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیئے گئے تھے۔ معاہدے کے تحت بھارت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دریائوں کے پانی بہائو کو اس طرح کنٹرول کرے کہ پاکستان میں اچانک تباہی نہ آئے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے پاکستان کو بروقت آگاہ کیا جائے مگر افسوس کہ اس بار بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آخری وقت میں سفارتی ذرائع سے پاکستان کو دریائوں میں سیلابی صورتحال اور پانی چھوڑنے کے بارے میں آگاہ کیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی جسکے نتیجے میں پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

حالیہ سیلابی بحران سے نمٹنے میں اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور صوبائی اداروں نے ریسکیو سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کیا تاہم محدود وسائل کے باعث حسب روایت پاک فوج کی ریسکیو ٹیمیں سب سے آگے نظر آئیں اور فوجی جوانوں نے ہیلی کاپٹروں، کشتیوں اور دیگر ذرائع سے ہزاروں افراد بشمول خواتین، بچوں اور بزرگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرکے اُنکی جانیں بچائیں۔ اسی طرح پنجاب حکومت اور پاک فوج کی ریسکیو ٹیموں کی کوششوں سے کرتارپور میں بابا گرونانک گردوارہ جو سکھ کمیونٹی کیلئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے، میں پھنسے سکھ یاتریوں کو ریسکیو کرکے انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ کرتارپور میں سیلابی پانی کی سطح 10 فٹ سے تجاوز کرگئی تھی تاہم فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کرتارپور کا دورہ کرکے سکھ رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اورکہا کہ کرتار پور کی رونقیں بحال کرنی ہیں جسکے بعد فیلڈ مارشل کی ہدایت پر کرتار پور سے فوری طور پر پانی نکال کر گردروارے کو صرف 3 دن کے مختصر وقت میں سکھوں کی عبادت کیلئے کھول دیا گیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی سکھ برادری سے محبت دیکھ کر بھارت میں بڑے سکھ رہنما بہت متاثر ہوئے جن کا یہ کہنا تھا کہ فیلڈ مارشل سکھ قوم کو گلے لگاتے ہیں مگر بھارت کو یہ بات ہمیشہ ناگوار گزرتی رہی ہے کہ سکھوں کے دلوں میں پاکستان کیلئے ہمدردی پیدا نہ ہو۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کے قریب میزائل داغ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ پاکستان کی جانب سے کیا گیا تاکہ سکھ برادری کو گمراہ کیا جاسکے تاہم آئی ایس پی آر نے بروقت وضاحت دے کر بھارتی پروپیگنڈا ناکام بنادیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے قبل مشرقی پاکستان میں ہر سال آنیوالا سیلاب تباہی مچاتا تھا اور اسے مغربی پاکستان کے وسائل ہڑپ کرنے کے مترادف قرار دیا جاتا تھا لیکن پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش نے اس مسئلے کو سنجیدگی اور ترجیحی بنیادوں پر لیا اور چھوٹے ڈیمز اور آبی ذخیرے بنائے جسکے بعد سیلابوں پر کافی حد تک قابو پالیا گیا۔ بھارت نے بھی اپنے ہاں سینکڑوں چھوٹے اور درمیانے ڈیمز تعمیر کئے جس سے سیلابی صورتحال پر کافی حد تک قابو پایا گیا ہے مگر پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں معمول کا حصہ بن چکی ہیں اور ہم ہر دو تین سال بعد آنیوالے سیلاب کے بعد وقتی اقدامات کرتے ہیں اور پھر غفلت کی نیند سوجاتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی ڈیمز بنانے کی بات کی جاتی ہے تو صوبائی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے نئے ڈیمز کی تعمیر پر سنجیدگی سے کام نہ کیا تو مستقبل میں سیلاب ایک مستقل انسانی المیہ کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ پاکستان کو صرف سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ دریائوں میں بھی دشمنوں کی سازش کا سامنا ہے مگر حالیہ سیلابی صورتحال میں پاک فوج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف سرحدوں کی محافظ نہیں بلکہ بھارت کی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ سیلاب میں پاک فوج کے کردار کو سراہا جانا چاہئے لیکن ہمیں اس المیے سے سبق لیتے ہوئے مستقبل میں سیلابی تباہی سے بچائو کے پائیدار اقدامات کرنا ہوں گے خصوصاً ڈیمز کی فوری تعمیر اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ پالیسی سازی ناگزیر ہے۔

تازہ ترین