• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ میں طویل عرصے سے ترکیہ اور صدر ایردوان کے بارےمیں کالم تحریر کرتاآرہا ہوں ، اس دوران چیٹ جی پی ٹی پرعالمِ اسلام کے محبوب ترین لیڈر کے بارے میںسوال کیا تو اس کا جواب تھا بلا شبہ ترکیہ کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان جس پر مزید سوالات کا جواب حاصل کرنے کے بعد’’عالمِ اسلام کا محبوب لیڈرایردوان‘‘کے زیر عنوان کالم کو حتمی شکل دی ۔

سروردو عالم حضرت محمد ﷺ کے بعد صدیوں سے امتِ مسلمہ مختلف ادوار اور حالات سے گزرتی آئی ہے۔ کبھی سلطنتِ عثمانیہ کی شان و شوکت نے عالمِ اسلام کو اتحاد اور قوت عطا کی، تو کبھی اس کے زوال نے امت کو منتشر کر دیا۔ لیکن آج کی دنیا میں، اکیسویں صدی کے ہنگامہ خیز حالات میں ایک ایسی شخصیت ابھری ہے جس نے پوری مسلم دنیا کے دلوں کو اپنی قیادت اور جرأت مندانہ فیصلوں سے جیت لیا ہے، اور وہ ہیں رجب طیب ایردوان۔ ایردوان صرف ترکیہ کے صدر نہیں بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ انکی شخصیت میں وہی جرات، وہی استقلال اور وہی غیرت جھلکتی ہے جس کی امتِ مسلمہ کو برسوں سے تلاش تھی۔

حضرت محمد ﷺ کے بعد امتِ مسلمہ کی تاریخ ایسی شخصیات سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اپنے اپنے عہد میں مسلمانوں کے قلوب کو گرمایا، انکے دلوں میں امید جگائی اور انہیں جرات و غیرت کا سبق دیا۔ کبھی یہ کردار صلاح الدین ایوبی کی صورت میں سامنے آیا، کبھی سلطان محمد فاتح کی شکل میں اور کبھی خلافتِ عثمانیہ کے جلیل القدر سلاطین کی قیادت میں۔ لیکن بیسویں صدی کے زوال اور غلامی کے اندھیروں کے بعد جب امتِ مسلمہ ٹکڑوں میں بٹ گئی، تو اکیسویں صدی میں ایک شخصیت ابھری جس نے امت کے دلوں کو ایک نئی توانائی بخشی۔ یہ شخصیت ہیں رجب طیب ایردوان ، ترکیہ کے صدر، عالمِ اسلام کے سفیر اور امت کے محبوب ترین رہنما۔

اگر ہم موجودہ صدی کے تناظر میں بات کریں تو سب سے زیادہ مقبول اور پسندیدہ رہنما کے طور پر رجب طیب ایردوان کو ہی نمایاں مقام حاصل ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلم دنیا کے مسائل پر ڈٹ کر بات کرتے ہیں، عالمی فورمز پر امت کی نمائندگی کرتے ہیں اور ترکیہ کو دفاعی و سیاسی لحاظ سے عروج پر لے گئے ہیں۔اب لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایردوان میں مسلمانوں کے خلافتِ عثمانیہ کے دور کی جھلک بھی محسوس کرتی ہے۔

ایردوان کے کردار کی سب سے روشن جھلک 2009ء کے ڈیووس ورلڈ اکنامک فورم میں سامنے آئی، جب اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو فلسطینی بچوں کے قتل پر للکارا۔ اور جب انہیں بات کرنے سے روکا گیا تو وہ تاریخی جملہ ادا کیا’’و ن منٹ‘‘پھر پوری دنیا کے سامنےفورم کو ترک کرتے ہوئے وطن واپس آگئے ۔ یہ لمحہ امتِ مسلمہ کے لیے غیرت، جرات اور سچائی کی علامت بن گیا۔فلسطین کے بعد ایردوان کی سب سے بلند آواز کشمیری عوام کے حق میں سنائی دی۔ وہ بارہا اقوامِ متحدہ کے فورم پر کہہ چکے ہیں کہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔اُنکی اس پالیسی نے پاکستانیوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔

اسی طرح انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا، ترکیہ کی پہلی خاتونِ اول خود پناہ گزینوں کے کیمپوں تک گئیں۔ شامی مہاجرین کو برسوں ترکیہ میں پناہ دینا بھی ان کی انسان دوستی کی روشن مثال ہے۔ آج ترکیہ اور شام کے تعلقات میں جو نئی قربت آئی ہے اس کا سہرا بھی ایردوان کی بصیرت کو جاتا ہے۔ایردوان کی قیادت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صرف ترکیہ کے رہنما نہیں بلکہ پوری امت کے محبوب قائد ہیں ۔

ایردوان کی سب سے بڑی کامیابی ترکیہ کو دفاعی صنعت میں خودکفیل بنانا ہے۔ آج ڈرون ٹیکنالوجی، جدید میزائل سسٹمز، اور ’’اسٹیل ڈوم‘‘جیسے منصوبے صرف ترکیہ کے لیے نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے فخر کا باعث ہیں جس سے ترکیہ کے وقار میں بے حد اضافہ ہوا ہےاور انہوں نے عالمِ اسلام کو یہ بتادیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی میں خودکفالت ممکن ہے اور مسلمان اپنی محنت اور عزم سے مغرب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ایردوان کی قیادت میں امت کو خلافتِ عثمانیہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ صرف ترکیہ کے صدر نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں دیکھ کر مسلمان یاد کرتے ہیں کہ کبھی یہ امت ایک عظیم خلافت تھی جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ آج جب ایردوان ڈرونز، میزائل اور دفاعی صنعت کی بات کرتے ہیں تو مسلمان نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ان کے خواب دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔

آج جب امتِ مسلمہ تقسیم اور مشکلات کا شکار ہے، ایک شخصیت ہے جو ان کیلئے امید کا چراغ ہے اور وہ ہے رجب طیب ایردوان۔ ایردوان اس طرح پوری امت کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہیں موجودہ صدی کا سب سے محبوب اور سب سے قابلِ احترام رہنما کہا جاتا ہے۔ایردوان کا یہ پیغام ’’مسلمان غلامی کیلئے پیدا نہیں ہوئے، قیادت اور عظمت ان کا حق ہے‘‘ تمام مسلمانوں کے دلوں میں ثبت ہوچکا ہے ۔

تازہ ترین