ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان حمزہ شفقات نے کہا ہے کہ جلسے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی، منتظمین کی جانب سے پریشر تھا۔ منتظمین سیکیورٹی تھریٹ کو سنجیدہ لیتے تو سریاب واقعہ نہ ہوتا۔
کوئٹہ میں پولیس حکام کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے واقعے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، خودکش حملہ آور کی شناخت نہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ جلسے کے لئے سیکیورٹی دی گئی تھی، واقعہ جلسہ گاہ کے اندر ہوتا تو نقصان بہت زیادہ ہوتا، دھماکے کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہماری ذمہ داری ہے، واقعہ جلسہ ختم ہونے کے 45 منٹ بعد پیش آیا، جلسے کے منتظمین کو تین بار کہا گیا تھا کہ جلسہ ختم کریں۔
حمزہ شفقات نے کہا کہ کچھ تفصیلات ایسی ہیں ہم اس وقت شئیر نہیں کرسکتے، یہ قبل از وقت ہوگا، انتظامیہ کی سیکیورٹی تھریٹ کو سنجیدہ لینا چاہیے، منتظمین اس کو سنجیدہ لیتے تو یہ نہ ہوتا، یہ بہت افسوسناک واقعہ تھا، اس کی روک تھام ممکن نہیں تھی، سریاب واقعہ کنٹرول سے باہر تھا، واقعے میں 15 اموات ہوئیں۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان نے کہا کہ خودکش حملہ آور کی عمر 30 سال سے کم تھی، وزیراعلیٰ بلوچستان نے شہداء کے لواحقین کو 15 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، زخمیوں کے لئے 5 لاکھ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بی این پی کے جلسے پر 120 پولیس اہلکار تعینات تھے، جلسے کا وقت 3 بجے تھا لیکن واقعہ رات 9 بجے پیش آیا، خودکش حملہ جلسہ گاہ سے 500 میٹر دور ہوا، سیکیورٹی صورتحال سے متعلق سیاسی جماعت کو آگاہ کیا تھا، آئندہ مغرب کی نماز کے بعد جلسے جلوسوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حمزہ شفقات نے کہا کہ جلسے کی اجازت دی تھی، ذمہ داری قبول کرتے ہیں، دھماکے میں ایک پولیس اہلکار بھی شہید ہوا، جتنی سیکیورٹی دی جاسکتی تھی وہ دی گئی تھی۔