• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی گاڑیوں کی پچھلی سکرین پر اسٹکرلگے ہوئے تھے، ہماری گاڑی پر بھی لگا ہوا تھا، سرخ و سیاہ اسٹکر پر مُکا بنا ہوا تھا اور نیچے لکھا تھا’’کرش انڈیا‘‘ اس منظر نامے سے سال کا تعین کیا جا سکتا ہے، یہ غالباً 72-1971کی بات ہو گی۔ والد صاحب انجینئرنگ یونی ورسٹی میں پروفیسر تھے اور گرمیوں کی چھٹیاں مری میں گزارا کرتے تھے۔ جس روز ہماری مری روانگی تھی اسی دن سیلاب کی آمد کا اعلان ہو گیا، خبر آئی کے سیلابی ریلا راوی کے پُل تک آ پہنچا ہے، اور اگلے دو تین گھنٹے میں پُل ٹریفک کی آمد و رفت کیلئےبند کر دیا جائے گا۔ فیصلہ ہوا کہ ہم ساز و سامان سمیت اپنی موٹر کار میں راوی کی طرف جائیں گے، پُل اگر کھلا ملا تو عبور کر لیں گے ورنہ لوٹ آئیں گے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو پل پر ٹخنے ٹخنے پانی آ چکا تھا مگر ابھی ٹریفک کھلی تھی۔ ہماری گاڑی آہستہ آہستہ پُل سے گزر گئی۔ اس منظر کا ایک پہلو ذہن میں کُھدا ہوا ہے۔ پُل پر سینکڑوں تماش بین حضرات شلواریں ’’ٹُنگ‘‘ کے ہنستے مسکراتے پھر رہے تھے، سبکسارانِ ساحل، خوانچہ فروش بھی اچھی خاصی تعداد میں وہاں اکٹھے تھے، گنڈیریاں اور پاپڑ بِک رہے تھے، ایک میلے کا سماں تھا۔دوسرا منظر۔ پانچ چھ سال پہلے کا ذکر ہے، ہم پانچ اہل خانہ ناران کی طرف روانہ تھے، راستے میں ایک رات شوگران قیام کا فیصلہ ہوا۔ ہوٹل پہنچے تو کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ وہاں کی ایک ایک چیز لکڑی کی بنی ہوئی تھی، فرش سے چھت تک، ایش ٹرے سے غسل خانے کے سِنک تک، ہوٹل کی فضا میں بھی دیودار کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ عملے سے بات چیت ہوئی تو علم ہوا کہ ہوٹل کا مالک طاقت ور سیاست دان تھا، اور ملحقہ جنگل یکسر اس کے رحم و کرم پر تھا، یعنی دیار کی لکڑی اسے دنیا کے کسی بھی تعمیراتی میٹیریل سے سستی پڑتی تھی، اسی لیے اس ہوٹل میں عملے کے سوا ہر ہر چیز لکڑی کی تھی۔تیسرا منظر۔ چار سال پہلے مینگورہ سوات کے ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا، لبِ دریا تین منزلہ عمارت تھی، ایک نیا بلاک بھی بن رہا تھا جو مرکزی عمارت سے باہر کی طرف نکلا ہوا دریا کے اوپر سایہ فگن تھا۔ چوتھا منظر۔ چار سال پہلے کالام کے ایک خوب صورت ہوٹل میں قیام کیا، صاف ستھرے ہوا دار کمرے، وافر ٹھنڈا گرم پانی، اور دلکش لوکیشن۔ بس ایک مسئلہ تھا، ہوٹل دریا کے اتنا نزدیک تھا کہ مسلسل پانی بہنے کا شور سنائی دیتا تھا، اتنا شور کہ چیخ کر بات کرنا پڑتی تھی، اور سونے کیلئے کانوں میں پلگ لگانا پڑتے تھے۔ اس ہوٹل کے مالک نے ایک دن ہمیں فخریہ طور پر بتایا کہ دو سال پہلے اس کا ہوٹل سیلاب میں بہہ گیا تھا، خالی میدان رہ گیا تھا، مگر اللہ نے اسے توفیق دی اور اسی جگہ اس نے پہلے سے بھی بڑا ہوٹل کھڑا کر دیا ہے۔بہرحال، کچھ دن بعد ٹی وی پر کالام میں سیلاب کے مناظر دیکھتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ پہلا ہوٹل جو سالم حالت میں اوندھے منہ دریا میں جا گرا وہ وہی ہوٹل تھا جس میں قیام کی سعادت ہمیں کچھ دن قبل ہی نصیب ہوئی تھی۔ کچھ ماہ بعد بُکنگ کیلئے مینگورہ والے ہوٹل فون کیا تو معلوم ہوا کہ ہوٹل کا ایک حصہ’’ھڑ میں رڑھ‘‘گیا ہے اور تعمیر نو کا کام دو ماہ تک مکمل ہو جائے گا۔اب سیلاب آئے تو یہ کہانیاں یاد آ گئیں۔ شوگران میں طاقت ور سیاست دان کا ہوٹل یاد آیا جس میں جنگلات کی چوری کی سینکڑوں ٹن لکڑی لگی ہوئی تھی۔ صورتحال جوں کی توں ہے، اس بار کے پی میں شدید بارشیں ہوئیں تو ہزاروں کٹے ہوئے درخت پانی میں بہتے ہوئے میدانوں میں آ گئے۔ یہ ٹمبر مافیا کا خزانہ تھا، جنگل کا جنگل، سب کا سب چوری کا مال۔ کالام اور مینگورہ کے ہوٹل غیر قانونی طور پر دریا کی گزر گاہ پر بنائے گئے تھے۔ وہ کوئی خفیہ اڈے نہیں تھے، دن دہاڑے تعمیر ہوئے تھے، طاقت ور لوگوں کے تعاون سے بنائے گئے تھے۔ یہ ہوٹل کوئی استثناء نہیں ہیں، یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سب غیر قانونی عمارتیں، سب ناجائز تجاوزات۔ یہی حال میدانی علاقوں کا ہے۔ سینکڑوں غیر قانونی رہائشی کالونیاں بنتی ہیں جنہیں بعد میں مختون قرار دے دیا جاتا ہے۔ آبی گزرگاہوں یا نشیبی علاقوں میں بنی ہوئی ان آبادیوں کو کون قانونی قرار دیتا ہے، نہ میں نہ آپ۔ہمارے حکمر ان دلچسپ لوگ ہیں۔ سیلاب آتے ہیں تو فرماتے ہیں ’’ہمیں ڈیم بنانے چاہئیں، یہی اس مسئلے کا حل ہے۔‘‘ اب ذرا اس بیان کو ڈی کوڈ کیجیے، حکمران دراصل کہہ یہ رہے ہوتے ہیں کہ سیلاب سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، یہ متعدد حکومتوں کے کرنے کا کام تھا جو انہوں نے نہیں کیا، اس مسئلے کا حل کالا باغ ڈیم ہے جو قومی اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا ہم بے قصور ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سب ماہرین متفق ہیں کہ ڈیم اس مسئلے کا حل نہیں ہیں، لہٰذا یہ بات تو یہیں چھوڑے دیتے ہیں۔ کیا آبی گزرگاہوں پر ناجائز تجاوزات کو روکنا یا ٹمبر مافیا کو نکیل ڈالنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا 2022میں سیلاب کےبعد حکومت نے کوئی تیاری کی تھی؟ اگر کی تھی تو اس راز کو اِفشا کیا جائے۔اب ذرا بڑی تصویر پر نظر ڈالیں۔ اس ملک میں آبادی کا سیلاب آیا ہوا ہے، چپہ چپہ آباد ہوتا جاتا ہے، آبی گزر گاہوں سے ریل کی پٹریوں تک، انسان رہنے پر مجبور ہیں۔ اور پھر ایک پھنکارتا عفریت غربت ہے۔ ہم سنتے رہتے ہیں ہمارے 42 فی صد سے زیادہ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندہ ہیں، ان اُفتادگان خاک کو کیا غرض کہ وہ کسی نالے کے ساکن ہیں یا کسی آبی گزرگاہ میں قیام پذیر۔ انہیں پتا بھی چل جائے کہ پانی سر سے گزرنے والا ہے تو وہ اللّٰہ مالک ہے کہہ کر آنکھیں موند لیتے ہیں، انکے پاس ہجرت کے وسائل بھی نہیں ہیں۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ وہ 169 اضلاع جنہیں ہائی رسک قرار دیا گیا ہے وہاں کی آبادی کی اکثریت اسی 42فی صد سے تعلق رکھتی ہے۔ آبادی کا مسئلہ کس نے حل کرنا ہے؟ غربت کا مسئلہ کون حل کرئیگا؟ حکمران کریں گے یا ’’اللّٰہ مالک ہے‘‘۔ اور اگر اللّٰہ مالک ہے تو حکمرانوں اور ان تماش بینوں میں کیا فرق ہے جو 1971میں ہم نے راوی کے پل پر دیکھے تھے۔

تازہ ترین