• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے رہنماسیلاب کے تھپیڑے سہتی قوم کو ایک بار پھرکالا باغ ڈیم کا سبز باغ دکھاکر اُلجھانے کے مشغلے سے فرصت پائیں تو خطے میں نہایت تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی طرف توجہ فرمائیں۔سفارتی اور تجارتی محاذ پر نئی صف بندی ہونے جارہی ہے ۔’’ہاتھی‘‘اور ’’اژدھا‘‘ایک ساتھ اُڑنے اور رقص کرنے کو تیار ہیں تو ’’شاہین‘‘کی پرواز کیا ہوگی؟کیا ہمارے ہاں کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف کو چینی صدر شی جن پنگ سے یہ درخواست کیوں کرنا پڑی کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کیلئےجامع مذاکرات آپ اپنی نگرانی میں کروائیں تاکہ ہم جلد اسکے ثمرات سمیٹ سکیں ؟

دراصل روسی بجٹ کے ایک تہائی محاصلات کا انحصار تیل اور گیس کی برآمدات پر ہے۔اس تناظر میںیوکرین پر حملے کے بعد روس کو نئی منڈیوں کی تلاش تھی ۔بھارت نے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا اور 2022ء کے بعد 140بلین ڈالر کا روسی خام تیل خریدا۔اسی طرح چین نے گزشتہ برس 100ملین میٹرک ٹن روسی کروڈ آئل درآمد کیا جو توانائی کے شعبہ میں مجموعی ضروریات کا 20فیصد بنتا ہے ۔روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں امریکہ نے بھارت پر اضافی ٹیرف عائد کردیا اور اسکی کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کردی۔چین اس صورتحال میں قائدانہ کردار اداکرتے ہوئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نافذ کیے گئے ٹیرف کے فیصلے کو بے اثر کرنے کا خواہاں ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ایک طرف روس تیل کی خریداری پر مزید رعایت دینے کو تیار ہے تو دوسری طرف بھارت ماضی کی کشیدگی کو بھلا کر چین کے ساتھ ایک نئے سفر کا آغاز کرنےکیلئے بیتاب ہے ۔بلاشبہ پاک چین دوستی سمندروں سے زیادہ گہری ،ہمالیہ سے زیادہ بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے مگرتلخ حقیقت یہ ہے کہ چین جنوبی ایشیا میں بھارت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔مثالی دوستی اور دفاعی تعلقات کے باوجود پاک چین تجارت کا حجم بمشکل 23.1بلین ڈالر ہے۔ اس میں بھی پاکستان کو 16.67فیصد خسارہ ہے کیونکہ ہم 19.62بلین ڈالر کی چینی مصنوعات درآمد کرتے ہیں اور صرف 2.38بلین ڈالر کی اشیاء فروخت کرپاتے ہیں۔ اسکے برعکس بھارت اور چین کی دو طرفہ تجارت کا حجم گزشتہ برس کم ہونے کے باوجود 118.4بلین ڈالررہا۔بھارت ہر سال 14.3بلین ڈالر کی مصنوعات چین کو برآمد کرتا ہے۔طویل عرصہ تک سرحدی تنازعات کے باعث بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں،اگر کشیدگی کے باوجود دوطرفہ تجارت کی یہ صورتحال رہی ہے تو تعلقات بہتر ہوجانے کے بعد تجارتی شراکت داری کا عالم کیا ہوگا؟

سات سال میں پہلی بار بھارتی پردھان منتری نریندرمودی چین تشریف لے گئے تو چینی صدر شی جن پنگ نے ون ٹو ون ملاقات کے بعد کہا ،بھارت اور چین کو متحارب ملک نہیں بلکہ شراکت دار ہونا چاہئے ۔بھارتی وزارت خارجہ نے بھی اسی قسم کے جذبے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین متحارب ملک نہیں بلکہ ترقی کے سفر میں شراکت دار ہیں ۔اس سے قبل جب دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے لگی اور امریکی سرد مہری کے سبب بھارت نے چین کے قریب آنا شروع کیا تو چینی صدر شی جن پنگ نے چین اور بھارت کے تعلقات کو Dragon Eelephant Tango سے تشبیہ دی تھی یعنی اس خطے میں بھارت ہاتھی ہے تو چین ڈریگن لیکن یہ دونوں بڑے اور طاقتور ترین جانورپرامن بقائے باہمی کے تحت ایک ساتھ رقص کرسکتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر ہاتھی اور اژدھا ایک ساتھ اُڑنے اور آگے بڑھنے کو تیار ہیں تو پھر شاہین کی پرواز کس جہاں میں ہوگی ؟دراصل پاکستانی وزیراعظم میاں شہبازشریف نے اپنے خطاب میں چینی صدر کو مذاکرات کی زمام کار تھامنے کی جو دعوت دی ،وہ اسی تناظر میں تھی۔چینی قیادت نے یقین دلایا ہے کہ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کے باوجود پاک چین تعلقات کی نوعیت تبدیل نہیں ہوگی۔پاکستان کے برعکس بھارت کے ساتھ تعلقات دفاعی اور تزویراتی نوعیت کے نہیں ہونگے۔ہاں مگر چینی قیادت چاہتی ہے کہ اب اس خطے میں امن ہو ۔یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے اور کشیدگی کم کروانےکیلئے پس پردہ بات چیت کا سلسلہ جاری ہے ۔چینی قیادت کا موقف یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں سرحدی تنازعات کے باوجود چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا سلسلہ جاری رہا،اسی طرح پاکستان اور بھارت بھی دوستی کے متحمل نہیں ہوسکتے تو کم ازکم دشمنی سے باز آجائیں ۔لیکن خاکم بدہن ،مجھے خدشہ ہے کہ آگے چل کر صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ عالمی تعلقات میں دوستی کا مطلب دوطرفہ مفادات ہوتے ہیں۔اب اگر بھارت کے چین کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور بڑے تجارتی سودے میں بدل جاتے ہیں تو یقیناًپاکستان کو چین کی غیر مشروط حمایت حاصل نہیں رہے گی اورچینی قیادت کسی حد تک غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرئیگی۔مثال کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کا اعلامیہ دیکھ لیں۔ہم اس بات پر خوش ہیں کہ اس فورم پر دہشتگردی سے متعلق پاکستان کا موقف تسلیم کرلیا گیا ہے اور نہ صرف جعفر ایکسپریس پر دہشتگردوں کے حملے بلکہ خضدار میں دہشتگردی کے واقعات کی باقاعدہ نام لیکر مذمت کی گئی ہے جو سفارتی سطح پر پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔لیکن تکلف برطرف،شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے کو ازسرنو غور سے پڑھیں تو یہ حقیقت مترشح ہوگی کہ اس میں سانحہ پہلگام کی بھی اسی انداز میں مذمت کی گئی ہے جس طرح جعفر ایکسپریس پر حملے سے متعلق افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔یادش بخیر،کبھی پاکستان کو غیر مشروط تائید و حمایت حاصل ہوا کرتی تھی، ہمارے پاس چین کا ’’بلینک چیک ‘‘ہوا کرتا تھامگر اب شاید یہ سہولت نہیں رہی ۔’’چیک‘‘تو اب بھی ہماری جیب میں ہے مگر یہ ’’بلینک‘‘نہیں رہا۔بہت کچھ بدل چکا ،بدل رہاہے اور مستقبل میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں ،نئی شیرازہ بندی کے اس دور میںپاکستان کہاں کھڑا ہے،اسے کہاں کھڑا ہونا چاہئے؟یہ موضوعات سنجیدگی ،متانت ،بصیرت اور عزم واخلاص کے متقاضی ہیں۔

تازہ ترین