کچھ زندگیاں ایسی ہوتی ہیں جو محض وقت کے دھارے میں بہہ نہیں جاتیں بلکہ تاریخ کا رُخ موڑ دیتی ہیں، زمانے کی سمت بدل دیتی ہیں اور طوفانوں کے مقابل ایسے کوہِ گراں بن کر کھڑی رہتی ہیں جنہیں صدیوں کی آندھیاں بھی ہلا نہیں سکتیں۔ نیلسن رولیہلہ منڈیلا بھی ایسی ہی ایک زندگی تھا۔ 1918ء میں مویزو کے سبزہ زاروں اور مٹی کی خوشبو میں جنم لینے والا یہ بچہ صرف ایک انسان نہیں رہا، وہ اپنی سرزمین کے زخموں کا مرہم بن گیا۔ اگر جنوبی افریقہ صدیوں کی غلامی اور تقسیم کا بکھرا ہوا کینوس تھا تو منڈیلا اس کے تاریک دھاگوں میں روشنی کا تانابانا بننے آیا۔ وہ ایک پھٹا پرانا لباس سیتا رہا، اور ایسی آزادی کا معمار ہوا جو بیک وقت نازک بھی تھی اور دائمی بھی۔
منڈیلا کے ابتدائی سالوں میں کوئی غیر معمولی شوکت نہ تھی۔ مگر وہ تیاری کے دن تھے۔ مشنری اسکولوں کی تعلیم اور قبیلے کی روایتی دانش نے اس کے مزاج کو ایک انوکھی صورت دی۔ روایت اور جدیدیت اس میں ہاتھ ملا بیٹھے۔ یہ دوہرا ورثہ قبیلے کی وفاداری کا کوڈ اور قانون کی زبان میں مہارت بعد میں اس کے لیے نیزہ اور ڈھال بن گیا، جب وہ نسل پرستی کے خون آشام نظام کے مقابل آیا۔
نسل پرستی یا ’’اپارتھائیڈ‘‘محض حکومت کا ایک قانون نہیں تھا، یہ ایک مکروہ انجینئرنگ تھی، ایک جیل تھی جس نے لاکھوں انسانوں کو پنجروں میں بند کر دیا تھا۔ آوازوں پر پہرے بٹھائے گئے تھے، عزتِ نفس کو بھوکا مارا گیا تھا۔ یہ ایسا نظام تھا جو صرف اقتدار نہیں بلکہ انسانیت ہی چھین لینا چاہتا تھا۔ ایسے فولادی پنجرے کے آگے اکثر لوگ مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیتے۔ مگر منڈیلا نے مایوسی کو عزم میں بدل دیا۔ اس نے اپنے رفقااولیور ٹامبو، والٹر سسولو وغیرہ کے ساتھ افریقی نیشنل کانگریس کو ایک تنظیم سے بڑھ کر ایک دھڑکن بنا دیا، ایک ایسا لہو جو ہر مظلوم کی رگوں میں بہنے لگا۔
منڈیلا پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتا تھامگر اسےجواب میں کوڑے اور گولیاں ملتی رہیں ۔اس نے 1961ء میں’’امکھونتو وے سیزوے‘‘یعنی ’’قوم کا نیزہ‘‘ نام کی ایک تنظیم قائم کی ۔سو اسی نام رکھنے کےجرم میں اسے دہشت گرد قرار دے کرگرفتار کر لیا گیا۔انیس سو چونسٹھ کے ریوونیا مقدمےمیں اس نے عدالت میں یہ یادگار الفاظ کہے جو ابد تک گونجتے رہیں گے’’میں نے ہمیشہ ایک آزاد اور جمہوری معاشرے کے خواب کو عزیز رکھا ہے... یہ ایک ایسا خواب ہے جس کیلئے میں اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ اس جملے نے اسے آزادی کی ایک علامت بنا دیا۔
پھر آیا وہ طویل اندھیرا جسے دنیا اس کی قید کے برسوں کے نام سے جانتی ہے۔ ستائیس برس کی قیدروبن آئی لینڈ، پولسمور اور وکٹر ویسٹر کی سخت سلاخیں۔ سورج تلے پتھر توڑنا، سنسر شدہ خطوط، اور بیٹوں بیٹیوں کی جوانیاں جو باپ کے بغیر گزریں۔ بیشتر لوگ ایسے قید خانوں میں گھل کر ختم ہو جاتے ہیں، مگر منڈیلا ان زنجیروں میں ڈھل کر فولاد ہو گیا۔ اس نے قید سے شکست نہیں مانی، بلکہ قید کو اپنی تربیت بنا لیا۔ وہ غصے کو ضبط میں ڈھالنے لگا، نفرت کو معافی کے عزم میں بدلنے لگا۔ وہ قیدی کم اور ایک زندہ درویش زیادہ تھاایسا درویش جو فولاد کے فرشتے کی طرح اپنے قفس میں بھی آسمان کی روشنی دیکھتا رہا۔
دنیا اس کے باہر بدلتی رہی۔ تحریکیں اٹھیں اور ماند پڑ گئیں، ممالک آزاد ہوئے، جلاوطنوں نے اس کا مقدمہ لڑا، یونیورسٹیوں کے ہجوم نے نعرے لگائے، موسیقی نے اس کے نام کو قاراتین میں پہنچا دیا۔ ’’فری منڈیلا‘‘ کی صدا دنیا بھر کے نوجوانوں کا ترانہ بن گئی۔ اور جب بالآخر 1990ء میں وہ جیل سے باہر آیا تو ایک بوڑھا قیدی نہیں بلکہ ایک زندہ علامت تھا۔ بال سفید ضرور ہو چکے تھے مگر آنکھوں کی آگ بجھی نہ تھی۔انتقام لینا آسان تھا، مگر اس نے معافی کو چنا۔ زمین لہو سے تر تھی، زخموں سے چور تھی، لیکن منڈیلا نے جان لیا تھا کہ قوم لاشوں پر تعمیر نہیں ہوتی، سانجھی سانسوں پر بنتی ہے۔ 1994ء میں جب وہ جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر بنا تو اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں زیتون کی شاخ تھی۔ وہ مفاہمت کو کمزوری نہیں بلکہ بقا کی حکمت جانتا تھا۔
منڈیلا جانتا تھا کہ نسل پرستی کے صدیوں پرانے نظام کو چند برسوں میں جنت میں بدل دینا ممکن نہیں۔ اس نے قوم کو مکمل محل نہیں دیا، مگر مضبوط بنیادیں رکھ کر اگلی نسل کے حوالے کر گیا۔منڈیلا کی عظمت اس کی کامل شخصیت میں نہیں بلکہ اس کے حوصلے میں ہےطاقت کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ، اصول کی خاطر دکھ سہنے کا حوصلہ، اور نفرت کے بدلے معاف کر دینے کا حوصلہ۔ وہ گوشت پوست کا انسان تھا مگر اپنے فیصلوں کے باعث اساطیر کے درجہ پر پہنچ گیا۔دوہزار تیرہ میں جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو ایسا لگا جیسے ایک براعظم کی نبض تھم گئی ہو۔ مگر اس نے خود کہا تھا: ’’موت ناگزیر ہے۔ جب ایک انسان اپنی قوم اور ملک کیلئے اپنا فرض ادا کر لیتا ہے تو وہ سکون سے مر سکتا ہے‘‘۔ اس پیمانے پر وہ واقعی سکون سے سو رہا ہے۔