خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خطہ پوٹھوار میں بلاخیز بارشیں ہوئیں، بادل پھٹے اور بہاؤ میں سب کچھ بہہ گیا۔ پھر پنجاب میں داخل ہونے والے تین دریا ایسے بپھرے کہ ابھی تک تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ گاؤں کے گاؤں اجڑ گئے، بستیاں ملیا میٹ ہو گئیں، گھر تو گھر رہے، قبرستان بھی دریا برد ہو گئے۔ بڑے شہروں کو بچانے کی آرزو میں بند توڑے گئے اور پانی کا رخ دیہاتوں کی طرف موڑ دیا گیا تاکہ شہروں کی بڑی آبادی بچ جائے مگر اس سے یہ ہوا بہت سے دیہات زیر آب آ گئے، چھوٹی چھوٹی بستیاں پانی نگل گیا، پنجاب کا کم و بیش 70 فیصد رقبہ پانیوں کا اسیر ہے۔ رابطہ سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں، کئی پل دریا کی موجوں کی نذر ہو چکے ہیں، غریب دیہاتی بے گھر ہو کر رہ گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں، کوئی پانی میں بہہ گیا، کسی کے مویشی پانی کی نذر ہو گئے، پانی نے جو کرنا تھا اس نے کیا مگر یہ سب کچھ کیا دھرا تو فیصلہ سازوں کا ہے۔ ایسے ہی غریبوں کی بستیاں اجڑ نہیں گئیں، اس المناک صورتحال میں محسن نقوی کا شعر رہ رہ کر یاد آ رہا ہے کہ
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
پنجاب میں حالات سنگین ہیں اور سندھ کی سنگینی کا پتہ ابھی سے پانی دے رہا ہے، انسانوں اور جانوروں کے علاوہ فصلوں کی بات کرتے ہیں۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جسے اناج گھر کہا جاتا ہے، پہلے تو صوبے کے کسانوں کے ساتھ ظلم ہوا، انہیں گندم کا مناسب ریٹ نہ ملا، پنجاب میں گندم کی خریداری سرکاری سطح پر نہ ہو سکی، کسان پس کے رہ گیا تھا کہ اب رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی ہے۔ پنجاب میں ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، چاول کی 80 فیصد فصل تباہ ہو گئی ہے، 40 فیصد گنا برباد ہو گیا، کپاس کی پیداوار میں بھی 45 فیصد کمی متوقع ہے۔ پاکستان بزنس فورم کے مطابق وسطی پنجاب میں اس سے پہلے اتنی بڑی تباہی کبھی نہیں ہوئی تھی، یہ تباہی خالی فصلوں تک محدود نہیں رہی، آئندہ چند ہفتوں میں زرعی اجناس کی قیمتیں 25 سے 30 فیصد بڑھ جائیں گی۔ پنجاب کے گوداموں میں ذخیرہ شدہ گندم کو شدید نقصان پہنچا ہے اور جن دیہاتوں کو پانی میں ڈبویا گیا، وہاں بھی زرعی اجناس ضائع ہو گئیں۔ سو اب کھانے پینے کیلئے صرف شہروں میں بسنے والوں کو ضرورت نہیں ہو گی بلکہ یہ ضرورت ان لوگوں کی بھی ہو گی جن کے ہزاروں دیہات زیر آب آئے۔
تم سے تو دلجیت دوسانجھ اچھا، اس نامور پنجابی گلوکار نے مشرقی پنجاب یعنی بھارتی پنجاب کے دو سو دیہات گود لے لئے۔ ایک اور پنجابی گلوکار و اداکار ایمی ورک نے 180دیہات اپنے ذمے لے لئے۔ سنجے دت اور بونی کپور نے ریلیف کیمپس لگا دیئے مگر جب میں اپنے دیس کو دیکھتا ہوں تو ندامت ہوتی ہے، اس دیس میں حکمرانوں نے اپنے دیہاتیوں پر کچھ خرچ نہ کیا بلکہ پنجاب میں تو چکر ہی الٹ چلایا، نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ ایک خاص تصویر ہو گی تو کھانا پینا تقسیم ہو گا ورنہ نہیں۔ اوورسیز پاکستانی اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ماضی کے کرپٹ لوگوںکے ذریعے نہیں دیں گے، آپ کو یاد ہو گا کہ جیل میں بند ایک شخص نے جب اپیل کی تھی تو منٹوں میں اربوں روپے جمع ہو گئے تھے، افسوس صد افسوس کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ لٹےپٹے سیلاب زدگان کے کیمپ میں جا کر پوچھتی ہیں’’ نقصان تو نہیں ہوا؟ ‘‘۔ کیا قیامت کی گھڑی ہے کہ فصلوں اور گھروں کی بربادی کے بعد کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ نقصان تو نہیں ہوا۔ کیمپ میں جاکر دکھوں کی بستی میں تصویر کے شوق میں بچوں سے کہاجاتا ہے’’ اسمائل‘‘۔ بچے اس لفظ پر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں، ان دیہاتی بچوں کو اسمائل کا کیا پتہ؟ انہیں مسکرانے کیلئے اس لفظ کا پتہ ہو گا جو ان کی مادری زبان میں کہا جاتا ہے اور کیا یہ کوئی اچھا عمل ہے کہ آپ دکھوں کی بستی میں جا کر آنسوؤں کے ڈھیر پر بیٹھے بچوں سے کہیں’’اسمائل‘‘۔ اوریا مقبول جان کے تازہ شعری مجموعے سے ایک غزل جو حالات کی تصویر کشی کر رہی ہے کہ
پرندے کوچ کرتے جا رہے ہیں
ہمارے گھر اجڑتے جا رہے ہیں
کوئی لکھے گا کیا نوحہ ہمارا
سبھی جاں سے گزرتے جا رہے ہیں
ابھی تو روشنی پھوٹی تھی گھر میں
ابھی سے سائے بڑھتے جا رہے ہیں
تمازت ہے کہ لو ہے بستیوں میں
سبھی بادل سرکتے جا رہے ہیں
ہماری کہکشاؤں سے ستارے
بڑی تیزی جھڑتے جا رہے ہیں
جو کل تک آنکھ میں تھے خوش نما سے
وہ منظر اب بدلتے جا رہے ہیں
کسی نے صور تو پھونکا نہیں ہے
نگر پھر بھی اجڑتے جا رہے ہیں