• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

چین کو شامل کرنے کی حکمت عملی اہم اور قابل عمل بھی ہے۔ چین آج دنیا کی سب سے بڑی صنعتی معیشت بن چکا ہے، اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)، 5G، برقی گاڑیاں، فوجی مصنوعات ، لڑاکا ہوائی جہاز ، میزائل اور سبز توانائی (Green Energy) سمیت جدید ترین مہارت رکھتا ہے۔ چین اپنے صنعتی دائرہ کار کو عالمی سطح پر وسیع کرنے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام(Belt and Road Initiative - BRI) کے تحت کام کر رہا ہے، جس میں پاکستان ایک مرکزی حصہ دار ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی شاہراہ(CPEC) پہلے ہی بنیادی ڈھانچے اور توانائی تعاون کی راہیں ہموار کر چکا ہے۔اب اگلا منطقی قدم گہری تکنیکی اور صنعتی شراکت داری ہے۔چینی کمپنیاں نہ صرف سرمایہ فراہم کرتی ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور عالمی رسد کے نظام تک رسائی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں، جو صنعتی ترقی، برآمدات میں اضافے اور پیداواری صلاحیت میں بہتری کیلئے اہم عوامل ہیں۔

پاکستان کی نوجوان اور فعال افرادی قوت، مسابقتی اجرتی ڈھانچے، اور اس کا جغرافیائی محلِ وقوع ، وسطی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ جیسے اہم علاقائی منڈیوں تک مؤثر رسائی فراہم کرتا ہے۔اس صنعتی جھرمٹ (QUAD)ماڈل میں پاکستانی جامعات اور صنعتوں کی شمولیت اس بات کی ضامن ہے کہ یہ صرف پیداواری سرگرمیوں تک محدود نہ رہے، بلکہ حقیقی ٹیکنالوجی کی منتقلی، مشترکہ جدت طرازی اور صنعتی مہارتوں میں بہتری کے ایک پائیدار اور باہمی فائدہ مند پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے۔

مثال کے طور پر ایک صنعتی جھرمٹ (QUAD) جو برقی گاڑیوں (Electric Vehicles) اور بیٹری ٹیکنالوجی (Battery Technology) پر مرکوز ہو۔ اس کے لئے چینی کمپنی( جیسے BYD یا CATL )ٹیکنالوجی اور مشینری فراہم کرسکتی ہے ۔پاکستانی شراکت دار صنعت ، موٹرگاڑیوں کی مقامی تیاری کا کام سنبھالے۔چینی جامعہ جیسے Tsinghua یا کوئی اور جامعہ نئی اقسام کی بیٹری اور برقی گاڑیوں کے نظام پر پاکستانی جامعہ جیسے NUST کے ساتھ تعاون کرے اور ٹیسٹنگ، تربیت اور جدت طرازی میں مدد فراہم کرے۔ یہ پاکستان اور چین کا چار کا جھرمٹ (QUAD) ایسی بجلی کی موٹر گاڑیاں اور بیٹریاں تیار کر سکیں گے جو دنیا بھر میں برآمد ہوں گی اور جس سے 5 ارب ڈالر کے برآمدی ہدف کو حاصل کیا جا سکے گا ۔اس طرح کے درجنوں جھرمٹ بنانے ہوں گے جن سے اعلیٰ قدر مصنوعات تیار کر کے اور چارسو ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات ممکن ہو جائیں گی۔

اس ماڈل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، حکومت پاکستان کو ہرصنعتی جھرمٹ (QUAD)کے لیے خصوصی بر آمدی اقتصادی دائرے کار (Special Export Economic Zones ) مختص کرنے ہوں گے، جہاں پر کشش ترغیبی سہولیات جیسے مفت زمین، پندرہ سال کے لیے ٹیکس معافی، مشینری کی ڈیوٹی فری درآمدات، حکومتی خرچے پر شمسی توانائی (Solar Power) تنصیبات جس سے بجلی 5 روپیہ فی یونٹ ( بجلی کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے)، اور دیگر سہولیات شامل ہوں۔ چین اس کے علاوہ رعایتی قرضے، تربیتی گرانٹس، اور برآمدی قرض کی ضمانتیں بھی فراہم کر سکتا ہے۔ اس اسکیم کے لئے ایک مرکزی نگرانی ادارہ وزیراعظم کے تحت قائم کیا جائے، جوان سب صنعتی جھرمٹوں (QUADs)کی نگرانی کرے، منظوری کے عمل کو تیز کرے، اور چینی کمپنیوں اور جامعات کے ساتھ رابطہ رکھے۔

اس کا اقتصادی اثر نہایت وسیع ہو گا۔ سو فعال صنعتی جھرمٹوں (QUADs) کا قیام اور ان میں سے ہر ایک کا سالانہ 5 ارب ڈالر کی برآمدات ہونے سے، پاکستان کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات پانچ سال میں 400 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکے گی۔ اس سے موجودہ کھاتہ توازن (Current Account Balance) بہتر ہوگا، روپے کی قدر مضبوط ہوگی، بیرونی قرضوں پر انحصار کم ہوگا، اور قومی اقتصادی خود مختاری (Economic Sovereignty)میں اضافہ ہوگا۔ مزید برآں، ہرصنعتی جھرمٹ (QUAD)براہِ راست اور بالواسطہ لاکھوں ملازمتوں کی دستیا بی خاص طور پر انجینئروں ، سائنسدانوں، تکنیکی ماہرین، اور ہنر مند کارکنوں کے لیے ذریعہ بنے گا ۔

یقیناً، اس بصیرت افروز پیش رفت کے کامیاب نفاذ کے لیے کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہوگا۔ انتظامی سستی (Bureaucratic Inertia)، پالیسی میں تسلسل کی کمی، کمزور دانشورانہ املاک کے قوانین (Intellectual Property Laws)اور تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان ہم آہنگی کی کمی کو دور کرنا لازمی ہے۔ ایک مضبوط قانونی طور پر نافذ کردہ گورننس کا ڈھانچہ چاہیے ہوگا جو پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنائے اور سرمایہ کاری کی حفاظت کرے۔ دانشورانہ املاک کے قوانین کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے تاکہ جدت طرازی کوفروغ ملے اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے۔ ان جامعات کو جو صنعتی جھرمٹوں (QUADs) میں شامل ہیں ،اپنے نصاب کو صنعتی شعبوں سے متعلق عملی تحقیق اور فنی تربیت کی جانب موڑنا ہوگا۔ چینی حکومت کو فوجی مدد سے آگے بڑھ کر پاکستان کے ان صنعتی جھرمٹوں (QUADs) کے ماڈل میں مدد کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر باہمی ملاقات اور باقاعدہ معاہدے کی ضرورت ہوگی۔

میری 2019 کی بیجنگ میں پیش کی گئی یہ حکمت عملی اب قوم کو ازسر نو جنم لینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر اسے واضح حکمت عملی، عزم، اور مربوط کوششوں کے ساتھ نافذ کیا جائے تو یہ صنعتی جھرمٹ نہ صرف 400 ارب ڈالر سالانہ برآمدات لا سکتے ہیں بلکہ وہ اعتماد، صلاحیت، اور استعداد بھی پیدا کریں گے جو ایک حقیقی علم پر مبنی معیشت (Knowledge-Based Economy) کے لیے ضروری ہے۔

اب عمل کرنے کا وقت ہے۔ چیلنج تو بہت بڑا ہے مگر فوائد اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ جرات مندانہ قیادت، مرکوز حکمت عملی، اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے پاکستان اپنے معاشی جمود سے آزاد ہو کر اعتماد کے ساتھ مستقبل کی جانب بڑھ سکتا ہے۔شاید یہ سب صرف ایک ٹیکنوکریٹ حکومت ہی کر پائے ۔

تازہ ترین