دفتر سے نکلتے ہوئے میں نے گاڑی کو فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طرف ٹرن کیا تو گاڑی کا ہارن خود بخود بجنا شروع ہو گیا اور پھر بجتا ہی چلا گیا راہگیروں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور دوسری گاڑی والوں نے اسے اپنے خلاف جارحانہ اقدام تصور کرتے ہوئے مجھے ایسی نظروں سے گھورنا شروع کیا کہ میں پانی پانی ہوگیا میں نے جلدی سے اتر کر بونٹ کھولا اور ایسے ہی ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کر دیا، جسکے لیے صحیح لفظ ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے کیونکہ حرام ہے اگر مجھے بونٹ کے نیچے پائی جانے والی چیزوں کے بارے میں کچھ پتہ ہو ادھر گاڑی کا ہارن بجتا چلا جارہا تھا بلکہ یوں لگتا تھا کہ فریاد کی لے اور تیز ہوگئی ہے اتنے میں ایک شریف آدمی کو مجھ پر ترس آیا یا اسے خو دپر ترس آیا چنانچہ اس نے آگے بڑھ کر ایک تار ڈس کنکٹ کر دی اور اس کے ساتھ ہی ہارن بجنا بند ہوگیا۔ میں نے اس کا شکر یہ ادا کیا، کہنے لگا شکریے کی کوئی بات نہیں ۔ اب یہ آپ کے بجانے پر بھی نہیں بجے گا۔ آپ اسے کسی مکینک کے پاس لے جائیں!مکینک کے پاس لے جانے کا اس وقت میرے پاس وقت ہی نہیں تھا، کیونکہ مجھے اچانک یاد آیا کہ مجھے تو اس وقت ایک دوست کو ریسیو کرنے اسٹیشن جانا تھا چنانچہ میں نے گاڑی کا رخ بدل کر اسے اسٹیشن کے راستےپر ڈال دیا۔ چیرنگ کراس سے اسمبلی ہال کا نصف راؤنڈ مکمل کرنے کے بعد میکلوڈ روڈ کی طرف آ گیا کہ مجھے یہاں اپنے پرانے دوست اورینٹ ہوٹل کے مالک شاہد ملک کے پاس کچھ دیر کیلئے رکنا تھا۔ شاہد ملک اپنے دفتر میں نہیں تھا چنانچہ میں نے گاڑی موٹر سائیکلوں کےاسپیئر پارٹس والی سڑک پر ڈال دی جو سیدھا اسٹیشن کو جاتی ہے اس سڑک پر بہت رش تھا تانگے، ریڑھے، کاریں ،رکشے ، سوزوکیاں اور اللہ جانے کیا کیا کچھ تھا کہ سیل بلا کی طرح رواں دواں تھا۔ ایک عورت بچے کی انگلی پکڑے سڑک پار کرنے کا ارادہ کر رہی تھی، جسکے لیے وہ چہرے پر پڑے بھاری نقاب میں سے دائیں بائیں دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ میرے پاس اتنا مارجن نہیں تھا کہ میں بریک لگا کر اسے گزرنے کا موقع دے سکتا چنانچہ اسے اس کے ارادے سے باز رکھنےکیلئے ہارن دبایا مجھے یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ ہارن اب دبانے سے بھی نہیں بجے گا ادھر عورت اپنے فیصلے پر عمل درآمد شروع کر چکی تھی چنانچہ وہ اس وقت سڑک کے عین درمیان میں تھی میں نے اتنی قوت سے گاڑی کی بریکیں لگا ئیں کہ بریکوں کی چرچراہٹ نے ہارن کا کام دیا مگر اس کی
وجہ سے ایک اسکوٹر سوار نے پیچھے سے مجھے ٹکر ماردی۔ اسکوٹر سوار کو پیچھے سے آنے والا رکشہ’’ٹکر‘‘گیا اور ظاہر ہے خود رکشے والے کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کا نازیبا سلوک ہوا ہوگا ۔ٹرین کی آمد کا وقت ہوگیا تھا مگر سڑک پہ رش اس قدر تھا کہ اس میں سے رستہ بنانے کے لیے ہارن کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی تھی میں نے دو چار دفعہ اس کا کام اپنے منہ سے لینے کی کوشش کی یعنی گردن باہر نکال کر مختلف قسم کی آوازیں لگائیں مگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک کہاں اثر کرتا ہے چنانچہ میں راضی برضا ہو کر ڈرائیو کرنے لگا تاہم اس وقت ضبط کا پیمانہ ایک بار پھر چھلک گیا۔ جب ایک سائیکل سوار عجیب وارفتگی کے عالم میں سیٹی پرکسی فلمی گانے کی دھن بجاتا ہوا میرے آگے آگے چلنے لگا حالانکہ وہ اگر ذرا سا بائیں جانب ہو جاتا تو میری مرادیں پوری ہوسکتی تھیں، مگر وہ بد بخت ٹھیک ناک کی سیدھ میں چلا جارہا تھا میں نے دُعا کی کہ یا خدا اس کے کتے فیل ہو جائیں اس کا پاجامہ سائیکل کے چین میں پھنس جائے اس کی گدی یا ہینڈل ایک دم سے نیچے کو بیٹھ جائے لیکن لگتا تھا کہ وہ گھر سے ماں کی دعائیں لے کر نکلا ہے چنانچہ میری بد دعائیں اس پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ چوک میں پہنچ کر وہ بائیں طرف مڑ گیا ورنہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا۔میںنے ہارن کے بغیر یہ چوک جس طرح عبور کیا وہ ایک دردناک داستان ہے مگر اس المیہ کہانی میں چونکہ ایسے درد ناک واقعات خاصی تعداد میں موجود ہیں لہٰذا یہ داستان چھوڑی بھی جاسکتی ہے۔ اب اسٹیشن بالکل قریب رہ گیا، مگر اچانک ٹریفک بلاک ہو گیا، جن کو اللہ تعالی نے ہارن دیئے تھے وہ خوش نصیب مسلسل ہارن بجا کر اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے تھے مگر یہ
بغیر ہارن والا حرماں نصیب صرف دعاؤں کے زور پر رستہ صاف ہونے کی توقع میں چپ چاپ بیٹھا ہونٹ ہلاتا رہا۔ میرے سامنے ایک ریڑھا کھڑا تھا، جس پر تیز دھار والے سریے لدے ہوئے تھے اور ان ” نیزوں ‘‘کا رُخ میری طرف تھا۔ میں نے احتیاطاً ان’’نیزوں‘‘ اور اپنے درمیان باعزت فاصلہ رکھا ہوا تھا مگر اچانک گھوڑے نے اُلٹے پاؤں چلنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے میں نے گاڑی کا ایکسیلیٹر پورے زور سے دبایا مگر کانوں کو پرنے سے اچھی طرح لپیٹ کر رکھنے والے کوچوان کے لیے یہ نحیف سا الارم کوئی معنی نہیں رکھتا تھا چنانچہ گھوڑا دبے پاؤں پیچھے کی طرف چلتا رہا میں نے ہاتھ باہر نکال کر گاڑی کے دروازے کو زور زور سے تھپتھپایا اتنے زور سے کہ میں بھول ہی گیا کہ یہ سوزوکی کار ہے جس کی باڈی بقول شخصے ڈالڈا کے ڈبوں سے بنی ہوئی ہے مگر اس باڈی کو اتنے زور سے بجانے کا رسک لینے کے باوجود گھوڑے اور کوچوان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،(جاری ہے)